کراچی، الطاف اور فوج طلبی

karachiموضوع تو صدر آصف علی زرداری کا وہ یان ہونا چاہئے تھا جو انہوں نے ایوان صدر میں تین پشت بہ پشت مشاورتی اجلاس کے بعد جاری کیا۔ فرمایاکراچی کی صورت حال خراب ہونے دیں گے اور نہ ہی ہاتھ سے نکلنے دیں گے۔ گویا اب تک کراچی کے حالات خراب نہیں ہوئے اور نہ ہی حکومت کے ہاتھ سے نکلے ہیں۔ یہ جو مسلسل انسانی لہو کے دجلہ اور فرات موجیں مار رہے ہیں، یہ جو آئے دن بوریوں میں بند گلی سڑی لاشیں ملتی ہیں، یہ جو پہروں مورچہ بند لڑائیاں ہوتی ہیں، یہ جو محنت کشوں کے سینکڑوں موٹر سائیکل چشم زدن میں راکھ کردیئے جاتے ہیں، یہ جو شہرکے بیشتر علاقے قلعہ بندیوں کی صورت نو گو ایریاز بنے ہوئے ہیں، یہ جو دو کروڑ کے لگ بھگ آبادی کا مسکن طرح طرح کے مافیاز کے پنجہ ستم میں ہے، یہ جو گزشتہ ایک ماہ میں تین سو سے زائد انسان نشانہ کشی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں، یہ جو ہر روز تقریبا دس ارب روپے کا کاروبار کرنے والا شہر مفلوج ہو کے رہ گیا ہے۔
یہ جو پولیس اور رینجرز کی گرفت سے نکل کر فرنٹیر کانسٹیبلری کے دست قدرت تک آن پہنچا ہے، یہ جو سرمایہ کار قافلہ در قافلہ نقل مکانی کررہے ہیں، یہ جو پورا شہر بے یقینی کے آسیب کی جکڑ میں ہے اور یہ جو بے خواب راتوں کا مرگھٹ بنتا جا رہا ہے تو اسے صورت حال کی خرابی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ حالات مکمل طور پر حکومت کے ہاتھ میں ہیں۔ آپ خود قیاس کرتے رہئے کہ ہمارے حکمران اور فیصلہ ساز کن ہواں میں ہیں، صورت حال کی سنگینی کے بارے میں ان کی حساسیت کا کیا عالم ہے اور کس آسانی کے ساتھ اپنے آپ، یا شاید پوری قوم کو فریب دے رہے ہیں۔
ایوان صدر میں پشت بہ پشت تین مشاورتی اجلاسوں کا یہ انقلابی فیصلہ بھی کالم کا موضوع ہوسکتا تھا کہ اتحادیوں نے صدر زرداری کو سیاسی قوتوں سے مذاکرات کا مینڈیٹ دے دیا۔ گویا اب تک صدر گرامی قدر کے پاس کوئی اختیار تھا نہ مینڈیٹ، وہ کسی سیاسی قوت سے بات کرسکتے تھے نہ مذاکرات، ان کے ہاتھ پاں بندھے ہوئے تھے اور وہ بے چارگی کے ساتھ بے اختیاری کی چادر تانے ایوان صدر میں سوئے ہوئے تھے۔ اب جب کہ انہیں دوسری سیاسی قوتوں سے بات چیت کا اختیار دے دیا گیا ہے اور معاملات براہ راست ان کے ہاتھ میں آگئے ہیں تو اصلاح احوال کا طلسمی دروازہ کھل جائے گا اور آنا فانا کراچی کی گلیاں رنگوں اور خوشبوں سے چھلکنے لگیں گی۔ کاش کوئی بقراط ہمیں پہلے اس راز سے آگاہ کردیتا کہ کراچی میں آگ اور لہو کے کھیل کا سبب یہ ہے کہ صدر زرداری مجبور و بے بس ہیں اور وہ کسی سے بات چیت کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ۔ایوان صدر میں پشت بہ پشت تین مشاورتی اجلاس ان کے بطن سے جنم لینے والے فیصلوں اور ان فیصلوں کے اعلانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسیحان قوم کی دانش و بصیرت کس درجہ کمال کو چھو رہی ہے۔
انہوں نے کراچی کی آتش فشاں کیفیت کا تجزیہ کس ہنر مندی سے کیا ہے اور اس کے علاج کا کیا شافی نسخہ تجویز کیا گیا ہے۔ تین پشت بہ پشت مشاورتی اجلاسوں سے برآمد ہونے والے نتائج کا خلاصہ یہ ہے کہ کراچی کی صورت حال نہ تو خراب ہے اور نہ ہی ہاتھ سے نکلی ہے اور اگر کوئی چھوٹی موٹی خرابی ہے بھی تو وہ فورا دور ہو جائے گی کیونکہ پہلے صدر زرداری زبان بندی کے باعث کسی سے بات چیت نہیں کرسکتے تھے لیکن اب سید قائم علی شاہ، منظور وسان، ذوالفقار مرزا اور رحمان ملک وغیرہم نے یہ اختیار ا نہیں مرحمت فرما دیا ہے۔
لیکن ایوان صدر کے تین پشت بہ پشت اجلاسوں کی لقمانہ تشخیص اور افلاطونی نسخہ کیمیا سے قطع نظر اہم ترین پیش رفت ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا تین زبانوں میں خطاب ہے۔ ایوان صدر کی مشاورتی چوپال کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی کوئی بات لائق توجہ ہے ہی نہیں لیکن قائد تحریک الطاف حسین کے خطاب کو پوری سنجیدگی سے لیاجانا چاہئے اور ان کی تقریر میں کروٹیں لیتے طوفانوں کی شدت کا گہری نظر سے جائزہ لینا چاہئے۔الطاف حسین نے(1) پہلی بار غیر مبہم انداز میں مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ناکام ہوگئی ہے اس لئے کراچی کا کنٹرول فوج اور رینجرز سنبھالیں۔(2) واضح الفاظ میں صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلی سندھ پر الزام لگایا ہے کہ وہ مجرموں اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔(3) من موہن سنگھ اور بھارتی رہنماں سے سوال کیا ہے کہ اگر کراچی میں 1992 جیسا آپریشن ہوا تو کیا وہ پانچ کروڑ مہاجرین کو دوبارہ بھارت میں قبول کرلیں گے؟(4) پہلی بار انگریزی زبان میں خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ حکومت پاکستان پر ایم کیو ایم کے ساتھ متعصبانہ سلوک نہ کرنے اور اس کا ووٹ بینک تقسیم نہ کرنے کے لئے دبا ڈالے۔ انہوں نے پہلی بار اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا بھی ذکر کیا ہے۔
دوسری اہم پیش رفت یہ ہے کہ کراچی کے حوالے سے عالمی تحرک کا پہلا مظاہرہ گزشتہ روز برطانیہ کی طرف سے ہوا۔ برطانوی دفتر خارجہ کے منسٹر برائے جنوبی ایشیا ایلسیٹرو برسٹ نے گورنر عشرت العباد سے ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد ایک باضابطہ بیان جاری کیا۔ بیان میں کراچی میں لاقانونیت اور انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔ کراچی میں برطانیہ کے ڈپٹی کمشنر، فرنسس کیمبیل نے بھی مختلف سیاسی رہنماں سے ملاقاتیں کیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کا معاملہ ہولے ہولے عالمی بازی گاہ کا حصہ بننے لگا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ براہ راست اقوام متحدہ سے درخواست کی جائے کہ وہ کراچی میں انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بنائے۔ جناب الطاف حسین کے سوال کا جواب دینے میں من موہن سنگھ اور بھارتی عمائدین کو کوئی دقت نہیں ہوگی۔ وہ بصد خوشی خوش آمدیدی بیان جاری کرتے ہوئے پاکستان کی تخلیق کو ایک تاریخی غلطی سے تعبیر کریں گے۔
اے این پی کے بعد ایم کیو ایم کی طرف سے فوج کو آواز دینے کا معاملہ بھی گہرے غور و خوض کا تقاضا کرتا ہے۔ اب تک ایم کیو ایم ماضی کے فوجی آپریشنز پر شدید تنقید کرتی رہی ہے۔ اسے تاریخ کا قہر ہی سمجھنا چاہئے کہ ایم کیو ایم آج اسی فوج کو کراچی کے بحران کا حل خیال کررہی ہے۔ لیکن یہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ فوج اپنا ذہن اپنا نظام تشخیص، اپنا انداز کار اور اپنا نسخہ کیمیا رکھتی ہے۔ وہ آ تو جائے گی لیکن آنے کے بعد اپنے مشن کی تکمیل کے لئے کسی کی طرف نہیں دیکھے گی۔ اگر اسے یہ کام سونپا جاتا ہے کہ وہ شہر کو ہتھیاروں سے پاک کرے، دہشت گردوں کو گرفت میں لائے اور مختلف مافیاز کو جڑوں سے اکھیڑ ڈالے تو وہ سایوں کا تعاقب کرنے کے بجائے ٹھوس نتائج دکھانا چاہے گی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بصد مشکل فوج کو سیاسی بکھیڑوں سے الگ رکھا ہے۔ وہ ایک بے ہنگم وارآن ٹیرر میں بھی الجھے ہوئے ہیں۔
ان کے لئے یہ امر کسی طور خوش آئند نہیں ہوگا کہ وہ فوج کو کراچی کے آتشکدے میں جھونک دیں۔ لیکن اگر صدر زرداری کے ایما پر وفاقی اور صوبائی حکومت نے ایسا فیصلہ کرہی لیا تو فوج چاہے گی کہ اسے آئین کے آرٹیکل 245 کا چھاتا میسر ہو تاکہ وہ کسی روک کے بغیر پوری آزادی کے ساتھ، اپنی حکمت عملی کو بروئے کار لاسکے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو آرٹیکل 245 کے تحت بنیادی حقوق کی معطلی اور عدالتوں کے اختیار پر قدغن کے حوالے سے عدلیہ کا رد عمل بھی دیکھنا ہوگا۔ اصل سوال یہ ہے کہ فوج ان سیاسی گتھیوں کو کس طرح سلجھائے گی جو کراچی کے بحران مسلسل کی اصل جڑ ہیں؟ مجھے تو ڈر ہے کہ جو لوگ آج فوج کی راہ میں قالین بچھا رہے ہیں کل وہی اس کے خلاف نعرہ زن ہوں گے۔ اور کراچی کو ایک دریا پار کرنے کے بعد ایک اور دریا کا سامنا ہوگا جو ممکن ہے اس دریا سے زیادہ گہرا، زیادہ تلاطم خیز ہو۔
تحریر :  عرفان صدیقی