کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں

Badan Phool

Badan Phool

کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا
وہ غزل کا لہجہ نیا نیا نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا

جسے لے گئی ہے ابھی ہوا وہ ورق تھا دل کی کتاب کا
کہیں آنسوئوں سے مٹا ہوا کہیں آنسوئوں سے لکھا ہوا

کئی میل ریت کو کاٹ کر کوئی موج پھول کھلا گئی
کوئی پیڑ پیاس سے مر رہا ہے ندی کے پاس کھڑا ہوا

وہی خط کہ جس پہ جگہ جگہ دو مہکتے ہونٹوں کے چاند تھے
کسی بھولے بسرے سے طاق پر تہہ گرد ہو گا دبا ہوا

مجھے حادثوں سے سجا سجا کے بہت حسین بنا دیا
مرا دل بھی جیسے دلہن کا ہاتھ ہو مہندیوں سے رچا ہوا

وہی شہر ہے وہی راستے وہی گھر ہے اور وہی لان بھی
مگر اس دریچے سے پوچھنا وہ درخت انار کا کیا ہوا

مرے ساتھ جگنو ہیں ہمسفر، مگر اس شرر کی بساط کیا
یہ چراغ کوئی چراغ ہے نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا

بشیر بدر