کون دیکھے گا

sun

sun

جو دن کبھی نہیں بیتا وہ دن کب آئے گا
انہی دنوں میں اس اِک دن کو کون دیکھے گا

اس ایک دن کو جو سورج کی راکھ میں غلطاں
انہی دنوں کی تہوں میں ہے، کون دیکھے گا

اس ایک دن کو جو ہے عمر کے زوال کا دن
انہی دنوں میں نمو یاب کون دیکھے گا

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا
مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا

تڑخ کے گرد کی تہ سے اگر کچھ پھول
کھلے بھی، کوئی تو دیکھے گا کون دیکھے گا

مجید امجد