کیا تعلیم ہمارا حق نہیں؟

Education

Education

کیا تعلیم ہمارا حق نہیں؟ یہ سوال میں نہیں کر رہا بلکہ یہ سوال خادم اعلیٰ پنجاب اور وفاقی حکومت سے جمبر کی بچیاں کر رہی ہیں جو اس تعلیمی دور میں تعلیم جیسی اہم چیز سے محروم ہورہی ہیں۔ویسے تو میرے بہت سے کالم آپ لوگوں کی نظر سے گزرے ہونگے مگر آج میں جس موضوع پرکالم لکھ رہا ہوں وہ میں اپنے علاقے کی عوام کے پرزور فرمائش پر لکھ رہا ہوں۔ ان کی فرمائش کے ساتھ ساتھ اس میں میری ذاتی آواز بھی شامل ہے ۔ میرا لکھنے کا اصل مقصد پاکستان کے حکمرانوں اور بالخصوص خادم اعلی پنجا ب میاں شہباز شریف کی نظر اس طرف مبذول کرانا ہے جو تعلیمی میدان میں انقلابی اقدام اٹھانے میںکوئی کسر نہیں چھوڑرہے ہیں مگر شاید ان کی نظر ابھی تک ہمارے اس علاقے پر نہیں پڑی۔

جمبرضلع قصور کا سب سے بڑا قصبہ ہے۔ملتان روڑپر ہونے کی وجہ سے اس کو پورے ضلع میں بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ واحد علاقہ ہے جس سے 24گھنٹوں میں کسی بھی وقت پاکستان کے کسی بھی شہر میں جانے کے ٹریفک باآسانی مل جاتی ہے۔ پھولنگر اور پتوکی کے درمیان میں یہ قصبہ واقع ہے ۔پتوکی اور پھولنگر میںبائی پاس بن جانے کی وجہ سے جمبر سے ہر گاڑی کا گزر لازمی ہوتاہے۔ اس کے علاوہ جمبر سے پاکستان کے سب سے بڑے ذخیرے یعنی نیشنل پارک چھانگا مانگاکے لیے بھی راستہ ادھر سے نکلتا ہے۔ اتنا اہم قصبہ ہونے کے باوجود حکومت پاکستان ، صوبائی حکومت ،ضلعی حکومت ، حلقے کے ایم این اے اور ایم پی ایز نے اس علاقے کی ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ جس کا کچھ منہ بولتا ثبوت یوںہے۔

مشرف دور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے تعلیم کا بیڑہ اٹھایا تھا مگر یہ علاقہ بدقسمت رہا جس پر سب کچھ جاننے کے باوجود ان کی نظر نہیںپڑی یا شاید اس علاقے کا کوئی والی وارث نہیں یا پھر یہ پاکستان کا علاقہ نہیں ؟ اس تعلیمی دور میں جہاں ہم خواندگی بڑھانے کی کوشش میں ہر کچھ کرگزرنے کو تیار ہیںمگر اس کے باوجودجمبر میں آج تک لڑکیوں کے لیے ہائی سکول نہیںجبکہ اس کے قریب ہی ایک چھوٹے سے گائوں میں لڑکیوں کے لیے ہائی سکول موجود ہے ۔ یہاں صرف ایک مڈل سکول ہے ۔مڈل سکول کے لیے بھی عمارت ناکافی ہے۔ جس کے پرائمری حصے کو جمبر کی عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت جنج گھر دیا ہواتھا مگر پچھلے سال ہونے والی بارشوںنے اس جنج گھر کی چھت کو بیٹھا دیا ۔ جس کی وجہ سے وہ بھی بند پڑا ہے اور مجبوراًاس مڈل سکول کو پانچ کمروں میں چلایا جا رہا ہے۔تعداد زیادہ ہو جانے کی وجہ سے بچیاںیا تو پرائیویٹ اداروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں یا پھر اپنے گھر بیٹھنے پر ۔ مشرف دور میں اس وقت کے ضلعی ناظم نے کئی بارلڑکیوں کے اس سکول کا سروے کرایا۔

محکمہ تعلیم کے آفیسر زکو بلایا اور عوامی جلسوں میں اس کا اعلان کیا مگر دس سال مشرف حکومت کرکے چلا گیا اس اقتدار ختم ہوگیا مگر یہ سکول اپنی تعمیر کے لیے آج بھی منتظر ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب ہر دور میں تعلیم عام کرنے اعلان کیا جاتاہے تو پھر جمبرجیسے علاقے میں سکول بنانے کے لیے کیوںکام نہیں کیا جاتا؟ کیا جمبر میں گرلز سکول بنانے کے لیے کوئی سپیشل کوٹہ ہوگا؟کیا جمبر کی بچیوں کا حق نہیں کہ وہ بھی تعلیم حاصل کرکے کسی اعلیٰ مقام پر فائز ہوسکیں؟ وہ بھی ڈاکٹر ، انجینئر یا سائنسدان بن سکیں۔میں اور اس حلقے کی عوام وزیر اعلیٰ پنجاب کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں تاکہ جہاں خادم اعلیٰ کبھی تقاریری ،مضمون نویسی کے مقابلوں میں ، کبھی سپورٹس کے نام ا ور کبھی لیپ ٹاپ کے نام جو کروڑں روپے خرچ کررہے ہیں کیا ان میں سے کچھ رقم جمبر کے عوام کے نام نہیں ہوسکتی؟ جہاں طالب علموں میں انعامات کی مد میں اتنا خرچ کیا جارہاہے کیا اس میں رقم میں اس علاقے کی بچیوں کا حق نہیں ؟ خادم اعلیٰ صاحب ! یہ بچیاں بھی آپ کی بچی ہیں جس طرح آپ دکھی انسانیت کی مدد کرنے اس کے گھر پہنچ جاتے ہیں کیا جمبر کا علاقہ آپ کے صوبہ میں نہیں ہے جو آپ ان کی مدد کرسکیں۔

اتنے اہم علاقے کو اس قدر نظر انداز کرنا کہاں کا انصاف ہے؟کیا اس علاقے کی بچیوں کا حق نہیں کہ وہ بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے کسی اچھے منصب پر فائز ہو کر اپنے ملک کی خدمت کرسکیں؟ کیا وہ پڑھے لکھے پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتیں؟ ان سوالوں کا جواب کس سے مانگے یہ بچیاں اور کون ہے جو ان کے سروں پر تعلیم کی چادر اوڑھا سکے گا۔تحریر : عقیل خان آف جمبر