کیا مُراد جنجوعہ کمیونٹی کی ’’مُراد ‘‘بن سکتے ہیں؟

کیا مُراد جنجوعہ کمیونٹی کی ’’مُراد ‘‘بن سکتے ہیں؟
تحریر:مرزا ندیم بیگ
بارسلونا میں نئے قونصل جنرل مُراد اشرف جنجوعہ تشریف لاچکے ہیں اور وہ بارسلونا میں قائم ہونیوالے قونصلیٹ میں تیسرے قونصل جنرل کی حیثیت سے اپنے عہدے کا چارج سنبھال رہے ہیں،انکے بارےشنید تو یہی ہے کہ وہ وہ وضع دار خاندان کے چشم وچراغ، منجھے ہوئے اور تجربہ کار سفارتکار ہیں اور دعا ہے کہ وہ بارسلونا میں کمیونٹی کی مُراد بن جائیں۔اس حوالے سے چند گزارشات راقم الحروف ان کے گوش گذار کر نا چاہتا ہے اوراس امید کے ساتھ کہ ’’شاید کہ اتر جائے ،ان کے دل میں میری بات‘‘۔جناب قونصل جنرل !سپین یورپ کے ان ممالک میں سے ہے جہاں بیروزگاری کی شرح یونان کے بعد آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے اور بیروزگاری کے عفریت کا جہاں ہسپانوی باشندے شکار ہیں وہیں پر اس نے امیگرنٹس اور بالخصوص پاکستانیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔اکثر پاکستانی بھوک اور بیروزگاری سے تنگ آکر دوسرے ممالک کا رُخ کر چکے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ معاشی بحران کی چکی کے پاٹوں میں پس رہے ہیں۔یہاں پاکستانیوں کی اکثریت کا روزگار ہی نہیں چھنا انکے ہنستے بستے گھر بھی ویران ہوئے یعنی وہ مکانات جو انہوں نے اچھے دنوں میں خریدے تھے اقساط کی عدم ادائیگی کے باعث ان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔پاکستانی فیملیز کے سپین میں آنے کے رحجان میں اضافہ1990 کے بعدہوا اور یہ دور سپین میں معاشی بحران کا نقطہ آغاز تھا۔بس پھر کیا ہونا تھا کہ معاشی ابتری نے ان خاندانوں کے چہروں سے بھی مسکراہٹیں چھین لیں اور’’پیٹ کی آگ کیسے بجھے گی‘‘جیسے تفکرات اور پریشانیوں نے چہروں کی رونقیں چھین کر ان کو افسردہ کر کے رکھ دیا۔وہ تو بھلا ہو سپین کے بینفٹس اور سوشل سیکورٹی کے نظام کا جس نے کسی نہ کسی درجے میں افراد کو دھڑام سے گرنے سے بچایا مگر پھر اکثر لوگوں کی زندگیوں میں ایسے دن بھی آئے کہ ان بینفٹس اور دیگر مراعات نے بھی منہ موڑ لیا۔حضور ماضی میں یعنی راجہ مسعود صاحب کے دور میں قونصلیٹ میں کیا ہوا؟اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا وہ قونصلیٹ بارسلونا کی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے ،بس اتنی گذارش ہے دفتر میں ذہنی دباؤ اورمعاشی مسائل میں گھرےسائلین کی بات کو اگر تحکمانہ انداز اور پاکستان کے روایتی دفتری نظام سے ہٹ کر سنا جائے تو نہ کوئی سائل آپے سے باہر ہو گا اور نہ ہی آپ کو پولیس کو ’’دعوت ‘‘دینا پڑے گی کہ وہ’’ گستاخان سرکار‘‘کو گھسیٹے ہو ئے لیجائیں۔اگر آپ کمیونٹی کے درد مندوں کی بات وقتی طور پر انکے برابر بیٹھ کر سن لیں گے تو قونصلیٹ آفس کو ان’’ آداب شاہی سے نابلدوں‘‘ کیخلاف مدعی بننے کی ضرورت نہیں ہے اور پھر وہ دن بھی نہ دیکھنا پڑے کہ مدعیت سے بلا مشروط دستبرداری اختیار کرنا پڑے۔اگر آپ ملک کیلئے زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ بننے والےان’’ اجڈ ،جاہل اورآ پ کا اقبال بلندہو ‘‘کے فلسفے کو نہ سمجھنے والوں کی بات اور مطالبوں کو پرکاہ کی وقعت بھی دے لیں گے تو یہ انسان نما’’کیڑے مکوڑے‘‘ یوم آزادی اور دیگر تقریبات میں اپنی داد فریاد کیلئے احتجاجوں کا سہارا نہیں لیں گے۔جناب مراد جنجوعہ صاحب!قونصلیٹ آفس کے تقدس کی بحالی بھی آپ کے وقار میں مزید بلندی کا باعث ہو گی اور اسے ایجنٹوں،خوشامدیوں اورذاتی مفادیوں اور دیہاڑی دار سراپا سجدہ ریز لوگوں سے بچائیں جو ماضی میں یہ بنا رہا ہے۔برائے کرم اس ضمن میں لوگوں سے ورکنگ ریلیشن ضرور اختیار کریں ان سے دفتر میں دوستیاں نبھانے کی روایت کو ختم کریں کیونکہ قونصلیٹ آفس کو ئی بیٹھک یا چوپال نہیں ۔ اگر آپ اس روایت کو ختم کردیں گے تو آپ اپنے ماتحت عملے کو زیادہ توجہ دے سکیں گے اور انکی مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھ سکیں گے۔ماضی میں دوستیاں نبھانے کی مکروہ روایت نے کمیونٹی کو ایسا پھاڑا اور اس کے ایسے حصے بخرے کئے ہیں کہ رہے نام اللہ کا،وہ تو بھلا ہو دو فعال اور حقیقی فیڈریشنز کا جن کے نئے صدرور حافظ احمد خان اور کامران خان نے فضاء کو بدلا اور اتحادواتفاق کی نئی روایتیں متعارف کروا رہے ہیں،اس نیک قدم کا اللہ ان کو اجر دے گا۔ ایک اور گزارش ہے کہ دفتر سے ایک لعنت کو ختم کریں جو لوگوں کی سہولت کے نام پر لائی گئی مگر وہ زحمت بن گئی ہے اور وہ قونصلیٹ کی حدود میں معاوضہ لیکر فارم پُر کرنا ہے ،جس کی آڑ میں دفتر کے دیگر اہلکار بھی’’دیہاڑی دار ‘‘بن گئے ہیں اور اس کیلئے حیلوں بہانوں سے سائلین کو زبردستی دفتر میں موجود افراد سے فارم پُر کرانے پر مجبور کیا جاتا ہے،اگر یہ اتنا ہی ضروری ہے تو وہ فارم پُر کرنیوالے دفتر کے قریب کوئی دکان لیں اور اپنا کام جاری رکھیں ،اس طرح کرنے سے ان کے روزگار پر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ھضور اس کمیونٹی کےمعاشی بحران سے زخموں سے چور کمیونٹی کے زخموں پر پھائے رکھنے کی ضرورت ہے اگر یہ ہوجائے تو اس کیلئے ان بھونڈی حرکتوں کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی کہ قونصلیٹ کے باہر نام کی تختی آویزاں کردی گئی،جھنڈا لہرادیا گیا۔نام کی تختی آویزاں کرانا اس قدر بڑا کام اور مشکل کام نہیں کہ اس کا ڈھونڈرا پیٹا جائے یا کارہائے نمایاں کے طور پر پیش کیا جائے، یہ کام تو اتنا معمولی ہے کہ ایک چھوٹاسادکاندار اپنی دکان کو کھولنے سے پہلے سرانجام دیتا ہے،اگر یہ کوئی بڑا یا مشکل کام ہوتو کوئی بھی دکاندار اپنی دکان کے باہر اپنے کام یا اپنی دکان کے نام کا بورڈ آویزاں نہ کرسکے،مگر تختی لگوانے اور جھنڈا لہرانے کی خبریں ایسی چھپوائیں گئیں جیسےیہ ’’کارنامہ ‘‘کسی ملک دشمن ملک میں سرانجام دیا گیا ہو،اور اس پر طفیلیوں اور کاسہ لیسوں کے قیصدے بھی مضحکہ خیز تھے کیونکہ ایسی خبریں اور قیصدےادارے کے تقدس کو پامال کر نے کے مترادف تھے۔جناب قونصل جنرل! آپ کا واسطہ کاتالونیہ میں بسنے والے پاکستانیوں اور انکے مسائل سے پڑیگا اور کاتالونیہ ہی وہ علاقہ ہے جہاں پاکستانی کمیونٹی سب سے بڑی تعداد میں آباد ہے،۔راقم الحروف کی آپ سے صرف ایک ہی التجا ہے کہ معاشی بحران ،بیروزگاری اور دیگر مشکلات میں گھری کمیونٹی کے مسائل کو سمجھیں اور اس مشکل وقت میں اس کمیونٹی کو صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ صرف آپکی اور آپ کے عملے کی جانب سے دلجوئی کی اور آپ کے چہروں کی مسکراہٹیں ہیں،اگر آپ نے ایسا کردیا تو کمیونٹی کے افسردہ چہرے کھل