کیا یہ امریکا کا اعلان ہے یا ہٹ دھرمی

america

america

واشنگٹن پوسٹ کی خبر کے مطابق امریکا کا یہ اعلان اِس کی عالمی دہشت گردی یا کھلی ہٹ دھرمی کے مترادف ہے جس میںوہائٹ ہاوس میں صدراوباما کے داخلی سیکیورٹی اور انسدادہشت گردی کے سینئر مشیر جان بریئن نے ہاورڈلااسکول میں خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ عالمی قانون کے تحت امریکا اپنے خلاف دہشت گردوں کی موجودگی کے خطرے کوختم کرنے کے لئے ان ممالک میں کسی بھی جگہ کارروائی کرسکتاہے جو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ جبکہ یہاں افسوس ناک امر یہ بھی رہاکہ امریکی داخلی سیکیورٹی اور انسداد ِ دہشت گردی کے سینئر مشیر جان برینن نے اپنے کہے کی سینہ ٹھونک اور گردن تان کر اپنی راعب دار آواز میں وضاحت کچھ یوں کی ہے کہ اب دنیااور خاص کر ان ممالک کو جو ہماری امداد اور قرضوں پر چل رہے ہیں انہیںیہ بات اچھی طرح تسلیم کرلینی چاہئے کہ دو مئی کو پاکستان میں نائن الیون کی دہشت گردی کے ماسٹرمائنڈ اسامہ بن لادن اور دیگر دہشت گردوں کو بھی امریکی انتظامیہ ، امریکی اورنیٹو افواج نے اِسی حکمتِ عملی کے تحت ہلاک کیااِس لئے امریکا یہ ضروری سمجھتاہے کہ امریکی انتظامیہ اور امریکی افواج اپنے دفاع کے لئے حملے کرکے اسامہ بن لادن کی طرح دنیاکے کسی بھی کونے میں موجود دہشت گردوں کو نیست ونابود کرنے کا عالمی قانون کے تحت اپنا یہ سب سے انوکھا اور نرالا حق استعمال کرکے امریکا مخالفین کو ختم کرکے اپنی بقااور سا لمیت کو برقرار رکھے اور اِسی کے ساتھ ہی ایسا لگا کہ جیسے جان برینن نے کھلے لفظوں میں بہت سے ایسے ممالک جوامریکا کے اِس عالمی حق کی دبے دبے لہجے میں مخالفت کرتے ہیں انہیں متنبہ کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ ہمارے اِس عالمی حق پر اگر کسی میں ہمت ہے تو وہ ہمارے دفاع کے اِس حق کے خلاف ذرا اپنی آواز اٹھا کر تو دیکھے پھر وہ اور دنیا یہ بھی دیکھے گی کہ امریکی انتظامیہ اور افواجِ امریکا اس کا کیا حشر کرتی ہے۔جان برینن کے اِس لہجے اور جملے میں کھلی دھمکی ہے ان امریکامخالفین کے لئے جو امریکا کے ہر اچھے برے کام پر تنقیدکرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اخبار واشنگٹن پوسٹ آگے چل کر اپنی اِسی رپورٹ میں یہ بھی تحریر کرتاہے کہ مسٹر برینن نے دانستہ طور پر اِس بات کی وضاحت کیوں نہیں کی ہے کہ اسامہ کی ہلاکت کے وقت امریکانے اس ملک کی اجازت اور اِسے معلومات دیئے بغیر اب امریکا اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو کس طرح قانونی قرار دے رہاہے یہاں ہم یہ سمجھتے ہیں جس اہم پوائنٹ کی جانب اخبار نے اشارہ کیاہے واقعی یہی وہ خاص نکتہ ہے جس کی وجہ سے امریکا کے اِس عالمی قانونی حق پر بہت سارے اعتراضات جنم لے رہے ہیں جس سے امریکا کی حیثیت دنیاکے نزدیک ایک ایسے ضدی ہڈحرام اور دہشت گرد ملک کے روپ میں سامنے آرہی ہے جو اپنے ہر غلط اور غیر قانونی فعل کو بھی زبردستی قانونی شکل میں لاکر جائز قرار دیتاہے اور دنیامیں اپنے حق اور مفادات کے تحفظ کے لئے وہ سب کچھ کرگزرتاہے جس کادنیا کا کوئی بھی دین و دھرم اور مہذب معاشرہ قطعا اجازت نہیں دیتا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کی جنگ میں (صرف مسلمانوں کے لئے) آدم خور شیر کا روپ دھارنے والا امریکا اب تک ایک اندازے کے مطابق اپنی افواج اور سامان حرب پر اربوں ، کھربوں ڈالر آگ میں جھونک ڈالنے اور اپنی معیشت کا بھی پوری طرح سے بیڑاغرق کر نے اور اِسے دیوالیہ کے قریب تر پہنچادینے کے بعد بھی اپنی ناکامی کو ماننے کے لئے ہرگز تیار نظر نہیں آرہاہے حالانکہ اِس کی تباہ حال ہوتی معیشت پر دنیابھرکے سیاسی و معاشی اور جنگی تجزیہ نگاروں اور اہلِ دانش کا خام خیال یہ ہے کہ آج دس سال گزرجانے کے باوجود بھی اِس (امریکا)میں اپنے بدلے کی آگ اسی طرح تازہ ہے جیسے یہ پہلے روز تھی جبکہ موجودہ امریکی انتظامیہ کی ذہنی کیفیت سے یہ اندازہ لگانابھی اب کوئی مشکل نہیںرہاہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِسے یہ احساس پوری شدت سے کھائے جارہاہے کہ اِسے اِس جنگ میں اپنا سب کچھ برباد کردینے کے بعد بھی اب تک وہ کامیابی اور وہکچھ حاصل نہیں ہوسکاہے جس کے حصول کے لئے اِس کے پیش رو نے گرم جوشی سے دہشت گردوں کے خلاف یہ جنگ شروع کی تھی اور اِسی کے ساتھ ہی اب دنیامیں یہ نظریہ بھی روز بروز زور پکڑتاجارہاہے کہ جیسے جیسے امریکی انتظامیہ کو اپنی اِس جنگ میں ناکامی کااحساس بڑھتاجارہاہے اِس میں اپنی اِسی سبکی کو مٹانے کے لئے آج بھی مسلمانوںسے بدلے کی آگ میں اور زیادہ اضافہ ہوتاجارہاہے اور امریکی انتظامیہ یکدم ہی پاگل ہوچکی ہے اور اِس کے نزدیک اِس کے وہ تمام ایسے مفادات ہی مقدم اور عزیز ہوکررہ گئے ہیں جن کے حصول کے خاطر اِس نے اپنے کھربوں ڈالز پھونک ڈالے ہیں۔  سانحہ نائن الیون کے بعد دنیاسے دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے پوری شدت کے ساتھ شروع کی جانے والی اِس جنگ میں امریکا اپنی ناکامیوں کے اِس منظر اور پس منظر میں اب صرف یہی ایک نکتہ سمجھ پایاہے کہ اِسے اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے بھلے سے احترامِ انسانیت کاخاتمہ کرکے اِسے خاک میں بھی ملانا پڑجائے تو اِس کی ضد اور ہٹ دھرمی کے سامنے یہ سودہ کوئی برانہیں ہے مگر ہر حال میں ضروری یہ ہے کہ اِس کے مفادات پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہئے۔ ہمارے خیال میںیہی وہ عنصر ہے کے جس کہ تحت امریکا نے اپنے گھناونے عزائم کی تکمیل کے ناپاک جذبوں کے ساتھ اپنے کلیجے میں دھکتے انتقام کے شعلوں کو ٹھنڈاکرنے کے خاطر ہرملک و ملت اور مذہب و دھرم کی سرحدوں کی خلاف ورزی اور اِس کی پاسداری کی تمام حدوں کو اپنے پیروں تلے روندھنے سمیت ہر قسم کے عالمی قوانین کی بھی دھجیاں بکھیرنااپناحق سمجھ لیاہے اور ہٹ دھرمی کی اس گری ہوئی سطح تک پہنچ چکاہے جہاں پہنچ کر دنیاکی کوئی بھی قوم اگر اچھائی کی جانب دوبارہ پلٹنا بھی چاہئے تو اِسے پوتر پاک صاف ہونے اور انسانیت کے دائرے میں پھر سے داخل ہونے کے لئے صدیوں کا سفر طے کرناپڑے گا ۔  اگرچہ یہاں سانحہ نائن الیون کے تناظر میں دیکھاجائے تو اِس سے انکا ر کرناناممکن لگتاہے کہ دنیاکو اپنی کھوئی ہوئی سوئی کے تلاش میں اپنی خفیہ ایجنسیوں اور جاسوسی کے جدیدآلات کی مدد سے کھنگال ڈالنے والے امریکاکو اپنی کھوئی ہوئی سوئی تومنٹوں سیکنڈوںمیں باآسانی مل جاتی ہے مگر کیا وجہ ہے کہ اِسی امریکا کو اپنی تمام ظاہری اور باطنی فورسز اور جدیدجنگی آلات سے لیس ہونے کے باوجود بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قدم قدم پر ناکامی کا منہ دیکھناپڑاہے….؟ اوراِس نے دنوں ،ہفتوں،مہینوں اور زیادہ سے زیادہ ایک سال کی لڑائی کو دیدہ و دانستہ طور پر ایک طویل ترین جنگ میں بدل دیااور اسامہ کو تلاش کرنے میں دس سال گزار دیئے اور جب اِسے اپنے ہی شہریوں کی جانب سے لعن تعن اور تنقیدوں کا نشانہ بنایاگیاتویہ دومئی کو اسامہ کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوا گیااور اِسی طرح آج ایک بار پھر یہی امریکااور امریکی انتظامیہ اور نیٹو افواج ہے۔
جو اسامہ کی طرح حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودگی کا دعوی کررہی ہے جبکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان میں موجود نہیں ہے بلکہ افغانستان میںاتحادی افواج اور افغان حکومت کے خلاف برسرِبیگار عسکریت پسند گروپ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے اِس اعلان نما واضح بیان کے بعد کہپاکستان میں ہماراکوئی ٹھکانہ نہیںہے ہم افغانستان کو اپنے لئے سب سے زیادہ محفوظ تصورکرتے ہیںاِس لئے کہ کابل حکومت میں ہمارے ہمدرد موجود ہیں اور ہم اپناملک آزاد کراناچاہتے ہیں  اِس کے بعد اب کوئی چارہ نہیں رہ جاتاہے کہ امریکا اور امریکی انتظامیہ اور نیٹوافواج اب حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودگی کا الزام پاکستان پر لگائیں اور افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کی تلاش میں اپنی ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے الٹا اِس کا ملبہ پاکستان کے سر تھونپنے پر بضد ر ہیں۔  جبکہ اب یہاں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ افغانستان میں امریکی انتظامیہ اور نیٹوفورسز کو اپنے خلاف سرگرمِ عمل رہنے والے حقانی نیٹ ورک کے جیتے جاگتے سربراہ سراج الدین حقانی کو تلاش کرنے میں کیوں پریشانی درپیش آرہی ہے….؟؟ اِس صورت حال میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا بھارتی زبان استعمال رہاہے اورحقانی نیٹ ورک کو پاکستان میں تلاش کرنے کا بہانہ ڈھونڈ کرپاکستان کے علاقوں پر حملے کرنے کی راہ ہموار کرناچاہ رہاہے جس سے نہ تو امریکا کو ہی کچھ حاصل نہیں ہوگا اور نہ ہی گریٹ بھارت کا خواب دیکھنے والے بھارتی عزائم کی تکمیل ہوپائے گی بلکہ الٹادونوں کو ہی منہ کی کھانی پڑے گی۔ اِس موقع پر ہماراخیال یہ ہے کہ اب تو امریکا اور بھارت کو یہ بات خود کہہ دینی چاہئے کہ نائن الیون کے دہشت گردوں کی تلاش میں افغانستان میں گھسنے کا جو منصوبہ ہم دونوں نے مل کر بنایاتھا دراصل ہم دونوں ہی سیاسی اور معاشی اعتبارسے اپنے اپنے منصوبو ں میں بری طرح سے ناکام ہوگئے ہیں۔
اِس کے ساتھ ہی ہم نائن الیون کی دہشت گردی کے کسی بھی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجود گی کی الزام تراشی سے باز آتے ہوئے حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودرہنے اپنی اِس ضدپر بھی پاکستان سے معافی مانگتے ہیں اور ساتھ ہی اِس موقع پر ہماراخیال یہ ہے کہ اگر امریکااور نیٹوافواج اِس بات کا بھی کھولے دل سے ادراک خود کرلیںتو اِس سے اِن کی تنی گردنیں سرنگوں ہونے سے نہ تو کچھ فرق پڑے گا اور نہ ہی کسی کا کچھ بگڑے گاکہ اب ہم نائن الیون کے دہشت گردوں کے ہر نیٹ ورک کو اپنے عزم وہمت سے ادھر ادھر ہوامیں تیر چلانے کے بجائے افغانستان میںہی تلاش کے بعد بازیاب کر کے دم لیں گے۔
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم