گُدڑی کے لال

Abdul Khaliq

Abdul Khaliq

ضلع شیخوپورہ کی شمالی سرحد پر راوی کنارے کھوکھروں کی بستی میرووال مغل بادشاہوں کے زمانے میں آباد ہوئی۔ وہاں پر فوجی چوکی اور اسلحہ سازی کا کارخانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹر عبدالخالق کے جد امجد مغل خاندان کے محمدبخش اس کارخانے میں ملازمت کے لیے میرووال میں آباد ہوئے۔آپ کے والد ماجد حاجی محمدابراہیم سناروں کا کام کرتے تھے ۔ پاکستان کے قیام سے پہلے بستی میں دوسودکانیں، مڈل سکول اور سول ڈسپنسری تھی۔ اکثرلوگ ترک سکونت کرچکے ہیں۔ بمشکل سوخاندان آباد ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ١٩٣٩ء میں میرووال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ملحقہ مسجد اور مڈل سکول سے حاصل کی۔ میٹرک بدوملہی ، ایف ایس سی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور اور ایم بی بی ایسنشترمیڈیکل کالج ملتان سے کیا۔ ایم بی بی ایس کے بعد ١١سال گورنمنٹ ملازمت کی اور ١٩٧٤ء سے وفات تک ضلع قصور کے شہر بھائی پھیرو میں مستقل رہائش پذیر رہے۔

ڈاکٹر صاحب کی عمر نوماہ تھی کہ آپ کے والد حاجی محمدابراہیم نے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کردیا اور سید بہادر علی شاہ ولد سید سلطان بخش مرحوم کو گود دے دیا۔ سید بہادر علی شاہ بے اولاد تھے۔ انہوں نے اس بچے کو بڑے پیار اور خلوص سے پالا اور زندگی کی آخری سانس تک ڈاکٹر عبدالخالق صاحب کی تعلیم و تربیت میں لگے رہے۔ ان کو تصوف کے اسباق کے علاوہ دنیاوی تعلیم سے بہرہ ور کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ سیدمرحوم کی کوششوں کا فیض ہے کہ راوی کنارے کی بستیوں میں سے آپ پہلے شخص تھے جو ڈاکٹر بنے۔

سید بہادر علی شاہ مرحوم کی صحبت کی وجہ سے بچپن ہی سے آپ کو یہ شعور حاصل ہوگیا کہ وہ دین کی خدمت کے لیے وقف ہیں۔ اس لیے ان میں دینی علم اور تصوف کے اسباق میں ذوق و شوق پید اہوا۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے تصوف کی کتابیں بھی پڑھیں، عربی زبان، قرآن کا ترجمہ اور درس و تدریس میں بھی دسترس حاصل کی۔ یوں سن بلوغت تک پہنچتے پہنچتے آپ واقعتاًدین کی خدمت کے لیے وقف ہو چکے تھے۔ حاجی ابراہیم بچے کی پرورش اور نگرانی میں باقاعدہ شریک رہے۔ تعلیم پر اُٹھنے والے زیادہ تر اخراجات خود برداشت کیے۔ باپ بیٹے میں محبت و شفقت کا سلسلہ ساری عمر جاری رہا۔ حاجی محمد ابراہیم اور سیدبہادر علی شاہ چونکہ ایک ہی بستی میں رہتے تھے اس لیے دونوں گھروںکے درمیان محبت و شفقت کا سلسلہ جاری رہا۔ ڈاکٹرصاحب کی تربیت محبت کرنے والے لوگوں نے کی ا س لیے آپ کی طبیعت میں بھی شفقت اور نرمی پائی جاتی تھی اور رشتہ داروں اور بستی والوں سے محبت کے تعلقات آخر وقت تک استوار رہے۔

سید بہادرعلی شاہ کے علاوہ آپ نے ١٩٧٤ء میں علاقہ چھچھ کے مولانا عبدالغفور قادری سکنہ دریاشریف نزدحضرو ضلع اٹک کی بیعت کی۔ ان کی وجہ سے ذکرواذکار اور قرآنی علوم سے شغف پیدا ہوا۔ ١٩٨٨ء میں آپ نے مولانا غلام ربانی چشتی صابری سکنہ چشت نگر ضلع ملتان کی بیعت کی۔ مولانا موصوف نے آپ کو خلافت بھی عطا کی۔ ١٩٨٨ء میں واصف علی واصف کی صحبت اختیار کی اور ان کی جمعرات کی مجلسوں میں شریک رہے۔ تصوف کے اسباق میں واصف علی واصف کا فیض بھی شامل ہے۔واصف علی واصف کی وفات تک یہ سلسلہ ملاقات جاری رہا۔

١٩٦٠ء میں جب نشترمیڈیکل کالج میں زیرتعلیم تھے تو فیصل آباد کے ڈاکٹرکفایت اللہ (ناظم اسلامی جمعیت طلبہ نشتر میڈیکل کالج) سے ملاقات ہو گئی۔ دونوں کلاس فیلو تھے۔ ان کے ذریعے مولانا مودودی کی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا۔ چونکہ آپ پر تصوف کا غلبہ تھا اس لیے مولانا مودودی کو خط میں لکھا کہ میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ مولانا نے جواب دیا میں بیعت نہیں کرتا۔ آپ کتابیں پڑھیں جب آپ کے شعور میں اضافہ ہوگا تو پھر آپ کو اسلام صحیح سمجھ آجائے گا۔اس زمانے میں مولانامودودی، ایوب خان کے زیرِعتاب تھے۔ ان کی ڈاک سنسر ہوتی تھی۔ اس لیے ڈاکٹرصاحب سے تفتیش کے لیے انٹیلی جنس والے ان کے گھر چلے گئے جس پر والد صاحب نے خوب ڈانٹ ڈپٹ کی۔ اس کے ردّعمل نے ایک صوفی مزاج شخص کو کارزار سیاست میں دھکیل دیا۔ پہلے مولانا مودودی کی صرف کتابیں پڑھی تھیں اب ان سے باقاعدہ ملاقات کی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن کی حیثیت سے ضلع ملتان میں بھرپور کام کیا۔ مولانا کی وفات تک رفاقت اور ملاقات کا سلسلہ چلتارہا۔ جماعت اسلامی میں آپ کی پختگی کی وجہ مولانا مودودی سے براہِ راست ملاقات ہے۔جماعت اسلامی کے حکم پر آپ نے دومرتبہ الیکشن بھی لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

ڈاکٹر صاحب نے مولانامودودی کی عصری مجلس میں سوال کیا کہ دیہات میں کام کرتے ہوئے بڑی دقتیں پیش آتی ہیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ مرجع خلائق بنیں، لوگوں کی خدمت کریں، ان کی مشکلات و مصائب میں ان کی فی سبیل اللہ مدد کریں۔ جب آپ خلقت کی توجہ کا مرکز بن جائیں گے تو ان شاء اللہ آپ کے سیاسی معاملات بھی مستحکم ہوجائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے مولانا کی نصیحت پر عمل کیا اور واقعی مرجع خلائق بنے ۔١٩٦٣میں ڈاکٹرصاحب جماعت اسلامی کے متفق اور ١٩٧٤ ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر باقاعدہ جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ جماعت اسلامی میں امیر ضلع، رکن صوبائی و مرکزی شوریٰ جیسی مختلف ذمہ داریوں پر اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے رات دن اللہ کے دین کے لیے وقف رہے۔

١٩٩١ء میں چوہنگ ضلع لاہور میں پریکٹس شروع کی۔ وہاں طارق منعم صدیقی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ میں آپ سے دین سیکھنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹرصاحب نے وعدہ کر لیا اور سوچا کہ کیوں نہ ایک ادارہ بناد یا جائے جس میں اور لوگ بھی دین سیکھنے کی کوشش کریں۔ چنانچہ دس محرم الحرام ١٤١٢ھ بمطابق ٢٣جولائی ١٩٩١ء کو چوہنگ میں ڈاکٹر صاحب کے نوشاگردوں کا اجتماع ہوا۔ اس میں دارالاصلاح کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا جس کا ابتدائی خاکہ اور دستور العمل تیا ر کیا گیا۔ اس دن سے آج تک دارالاصلاح کام کر رہا ہے اور تقریباً ٤٠کے قریب مستقل شاگرد اس چشمۂ علم سے فیض حاصل کر رہے ہیں۔ آپ ایک اچھے آئی سرجن تھے۔ صبح ٩بجے سے دوپہر ١ بجے تک کلینک پر پریکٹس کرتے اس کے بعد روزانہ تبلیغی دورہ جات کے لیے پنجاب بھر کے مختلف علاقوںمیں جاتے ۔ ڈاکٹر صاحب روزانہ کی بنیاد پر ماہوار پروگرام مرتب کرتے اور اس پر باقاعدگی سے عمل کرتے ۔ اپنے تمام کام خودکرتے ۔ پیر اور جمعرات کا پیرانہ سالی اور مختلف بیماریوں کا شکار ہونے کے باوجود مستقل روزہ رکھتے تھے۔

٢٨ اپریل ٢٠٠٧ء کو جب ماہانہ پروگرام کے سلسلے میںچونیاں تشریف لے جانے کے لیے بس سٹینڈ پر پہنچے تو دل کا شدید دورہ پڑا ، خود ہی نزدیکی میڈیکل سٹور پر سوا لینے گئے تو ایک شخص اپنی بیماری کے بارے میں مشورہ کرنے آ گیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تکلیف نظر انداز کر کے اسے نسخہ لکھ کر دیا ۔ ان کے بھتیجے ڈاکٹر داود پرویز انہیں لے کر لاہور کے لیے روانہ ہوئے ۔ راستہ میں چھوٹے بیٹے انس مجاہد سے بات کی۔ ڈاکٹرز ہسپتال کے قریب طبیعت زیادہ خراب ہو گئی جس کی وجہ سے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی بجائے فوری طور پر ڈاکٹرز ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہوں نے جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

الحمد للہ ڈاکٹر صاحب نے چند اصلاحی کتب ہدایت، مقصد زندگی، حقیقت ذکر، جادو سے کیسے بچیں، دعوت الی اللہ ، سورہ نوح کی روشنی میں، اقامت دین، سورہ بنی اسرائیل کی روشنی میں، انقلابی کارکن کے اوصاف، سورہ یوسف کی روشنی میں، اصلاح معاشرہ، سورة النحل کی روشنی میں اور معمولات شائع کی ہیں۔ ہدایت، جادو سے کیسے بچیں کا دوسرا ایڈیشن اور معمولات کا تیسرا ایڈیشن شائع ہو چکا ہے۔

تحریر : عقیل خان آف جمبر