ہم نے اس شہر میں جینے کا ہنر ضائع کیا

sad city

sad city

ہم نے اس شہر میں جینے کا ہنر ضائع کیا
منزلیں ایسی ملی ہیں کہ سفر ضائع کیا

شعر بے ربطی افکار سے بوجھل ٹھہرے
ناز تھا جس پہ وہ اندازِ نظر ضائع کیا

تختہ گل میں لہو رنگ ہے کانٹوں کی بہار
جانے کیا سوچ کے یہ خون جگر ضائع کیا

اپنی اُمیدوں کو خود آگ لگا دی ہم نے
دل میں برسوں سے جو پالا تھا شرر ضائع کیا

آپ کو راہ گزر چاہیے تھی سو ہم نے
اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا گھر ضائع کیا

شاہد رضوی