یہ زمیں ہم کو ملی بہتے ہوئے پانی کے ساتھ

waterhouse

waterhouse

یہ زمیں ہم کو ملی بہتے ہوئے پانی کے ساتھ
اک سمندر پار کرنا ہے اسی کشتی کے ساتھ

عمر یونہی تو نہیں کٹتی بگولوں کی طرح
خاک اڑنے کے لیے مجبور ہے آندھی کے ساتھ

جانے کس اُمید پر ہوں آبیاری میں مگن
ایک پتا بھی نہیں سوکھی ہوئی ٹہنی کے ساتھ

میں ابھی تک رزق چننے میں یہاں مصروف ہوں
لوٹ جاتے ہیں پرندے شام کی سرخی کے ساتھ

پھینک دے باہر کی جانب اپنے اندر کی گھٹن
اپنی آنکھوں کو لگا دے گھر کی ہر کھڑکی کے ساتھ

جان جا سکتی ہے خوشبو کے تعاقب میں نوید
سانپ بھی ہوتا ہے اکثر رات کی رانی کے ساتھ

اقبال نوید