یہ زہر ہے یا کوئی نشہ مٹھاس کا

man drinking

man drinking

یہ زہر ہے یا کوئی نشہ مٹھاس کا
پیتا ہوں کب سے پر وہی عالم ہے پیاس کا

آنکھوں کو خوں سے بھر گیا اِک ریزہ ریزہ خواب
پائوں میں چبھ گیا کوئی ٹکڑا گلاس کا

مفرور قیدیوں کو ڈسیں سرسراہٹیں
سانپوں کا رنگ بھی ہے، وہی جو ہے گھاس کا

اُڑنے لگوں تو گولی کوئی پَِر نہ چاٹ جائے
چہکوں تو خوف ہے مجھے خاکی لباس کا

آئیگا پھر سے رہنے مرے دل کے اِرد گِرد
ڈھونڈے گا پھر مکان کوئی آس پاس کا

میں نے پلٹ کے دیکھا نہیں بیس سال سے
ہو گا یہ شخص بھی کوئی میری کلاس کا

بِکھرا ہوا ہے رنگِ شفق چار سُو نسیم
یا عکس آسماں پہ ہے اُسکے لباس کا

افتخار نسیم