احتساب ناگزیر ہے

 Accountability

Accountability

تحریر : ایم پی خان

احتساب یا محاسبہ حساب کتاب کرنے کو کہتے ہے ۔فردکی انفرادی اصلاح کے لئے خود احتسابی نہایت ضروری ہے۔اگر انسان اپنا محاسبہ نہیں کرے گاتوبگاڑ کا آغاز اسکی ذات سے ہوگا۔اسی لئے نفس کی اصلاح وتزئین کے لئے بہترین ذریعہ محاسبہ نفس ہے۔ خو داحتسابی میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ انسان اپنے ضمیرسے یہ سوال کرے کہ کیااس نے اللہ تعالیٰ کی بندگی کاحق اداکیاہے یا نہیں۔ جو ذمہ داریاں اسے اپنے رب کی طرف سے سونپی گئی ہیں، کیاوہ انکوکماحقہ ُ پوری کررہے ہیں یاغفلت کامرتکب ہورہاہے۔ اس عمل سے فرد کی انفرادی اصلاح ہوجاتی ہے اوراگر معاشرے کے بہت سے افراد خوداحتسابی کاعمل شروع کردیتے ہیںتواصلاحی معاشرہ وجودمیں آتاہے اوراجتماعی اصلاح کاعمل شروع ہوجاتاہے۔اجتماعی احتساب سے ایک معاشرہ، ایک علاقہ اوررفتہ رفتہ پورا ملک اصلاح کے عمل سے گزرتاہے اورایک اصلاحی ریاست وجودمیں آتی ہے۔

ایسی ریاست جہاں ایک عام آدمی کھڑا ہوکر اپنے خلیفہ حضرت عمر سے پوچھ سکتے ہیں کہ مال غنیمت میں سب کو ایک ایک چادرملی ہے اورآپ کالباس دوچادروں سے بناہے، یہ دوچادریں آپکے پاس کہاں سے آئیں؟ خلیفہ وقت نے اپنے فرزند عبداللہ کواشارہ کیا کہ وہ وضاحت دے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر نے کھڑے ہوکر فرمایاکہ آپ نے اپنے حصے کی چادراپنے والد صاحب کو دی ہے۔یہ بھی ریاست تھی جب ایک عام آدمی خلیفہ وقت کااحتساب کرسکتاہے اورخلیفہ وقت وضاحت دیتے ہیں نہ کہ شکوہ شکایت کادفترکھول دیتے ہیں، اپیل پہ اپیل کرتے ہیں اوراداروں کے حرمت پامال کرتے ہیں۔

آج ہم بھی ایک ایسے دورسے گزررہے ہیں ، جہاں ہم سب کو خوداحتسابی کی ضرورت ہے۔خوداحتسابی کے ساتھ ساتھ ہمیں بحیثیت قوم اپنے لیڈروں کا اورپھر بحیثیت مختار اپنے ماتحت اہلکاروں کابھی احتساب کرناچاہئے۔دنیاکی تاریخ پر نظرڈالی جائے توہرملک اورقوم میں احتساب کا ایک مضبوط اورمربوط نظام ہوتاہے ۔ جن قوموں نے اس عمل میں غفلت اورکوتاہی برتی ہے ، وہ تاریخ کے چوراہے پر نشان عبرب بنی ہوئی ہیں ۔ احتساب کے بغیر نہ کوئی معاشرہ آگے بڑھ سکتاہے اورنہ کوئی قوم ترقی کرسکتی ہے۔ دنیاکے تمام ممالک میں احتساب کے لئے ادارے قائم ہیں۔ ان اداروں کاکام اپنی ریاست کے مشینری چلانے والے تمام لوگوں کااحتساب کرناہوتاہے کہ کہیں کوئی صاحب اختیاراپنے فرائض میں غفلت کامرتکب تونہیں ہورہا اورکہیں کوئی حاکم وقت قومی خزانے کو مالِ غنیمت سمجھ کر خودکو ، اپنی اولاد اور عزیز و اقارب کو مالامال تونہیں کررہاہے۔

پاکستان میں احتساب کے لئے مختلف ادوار میں مختلف تحقیقاتی اداروں کاقیام عمل میں لایاگیاہے اورہردورحکومت میں احتساب کے لئے ان اداروں میں مختلف سیاسی شخصیات اورسرکاری افسران کومقدموں کاسامناکرناپڑاہے، مگر اس قوم کی بدقسمتی سمجھیں یانظام کی خرابی کہ آج تک کسی بھی بڑی شخصیت کو نہ توکرپشن یعنی بدعنوانی میں سزاسنائی گئی ہے اورنہ کسی سے چوری شدہ قومی دولت حاصل کی گئی ہے۔ہماراسب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ جب کوئی جمہوری حکومت وجودمیں آتی ہے تواسکے مخالفین ان کے خلاف کرپشن اوربدعنوانی کامہم چلاتے ہیں جبکہ حکومت وقت بھی اس سلسلے میں اپنے مخالفین کے خلاف کرپشن ، بدعنوانی، چوری اوراقرباپروی کے الزامات لگاتی رہتی ہے۔

پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف مختلف ادوار میں برسرپیکاررہی ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی چونکہ مختلف ادوار میں اورنگ حکومت پر جلوہ گررہی ہیں اوراس سلسلے میں انہوں نے ایکدوسرے کے خلاف کرپشن اور بدعنوانی کے ایسے سنگین الزامات لگائے ہیں ،جسکی مثال نہیں ملتی۔ پاکستانی معیشیت کے زوال کی اصل وجہ ان کے نزدیک انکی مخالف سیاسی جماعت کے دورحکومت میں قومی خزانے کو شیرمادرسمجھ کر بری طرح لوٹ مار کے سلسلے میں قومی دولت کو بیرون ملک منتقل کرناہوتی ہے۔ ان کے علاوہ باقی چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیاں ہردورمیں حواری بن کر حکومت کے بغل کی جیب میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے میں ایک بات سرفہرست ہے کہ انکے مدمقابل چور، کرپٹ اوربدعنوان ہیں اوراس بیانئے پر وہ عوام سے مینڈیٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

دوسری طرف یہ تمام جماعتیں اپنے اپنے دورحکومت میں اس امر کابھی بہ بانگ دہل اقرار کرتے ہیں کہ قومی خزانہ خالی ہے اوراسکی اصل وجہ سابقہ حکومت کی نااہلی، چوری، بدعنوانی اوراداروں میں من پسندوں لوگوں کاتقررہے۔جہاں تک ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کاتعلق ہے توان میں سے جماعت اسلامی اورجمعیت علمائے اسلام سرفہرست ہیں۔انکے منشورمیں جمہوریت کی آزادی کے ساتھ ساتھ کسی حد تک نظام کواسلامی خطوط پراستوارکرنابھی شامل ہے ۔ جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانافضل الرحمن صاحب کے نزدیک توہردورمیں جمہوریت خطرے میں ہوتی ہے اورانکادوسرا بیانیہ غیرشفاف انتخابات کاہوتاہے ۔ اس سلسلے میں مولاناصاحب نے 2013اور 2018کے انتخابات کو مکمل دھاندلی زندہ قراردیاتھا۔ان چھوٹی چھوٹی جماعتوں کابھی اپنااپنابیانیہ ہے مگرانکی بدقسمتی ہے کہ یہ لوگ پورے ملک میں وہ مینڈیٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں، اسلئے یہ کسی بھی منتخب حکومت کے ساتھ شامل ہوکر اپنے بیانئے کو اسکے بیانئے میں مدغم کردیتی ہیں۔

آمدم برسرمطلب ، موجودہ حکومت کابیانیہ ہمیشہ کرپشن فری پاکستان کاتھا اوروزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ یہ بات کہی ہے کہ پاکستان کے زوال کی اصل وجہ صرف اورصرف سابقہ حکمرانوں کی غلط پالیسیاں اوربے انتہاکرپشن اورمنی لانڈرنگ ہے۔ وزیراعظم صاحب کے اس موقف کااعتراف سابقہ حکومتوں اورتمام سیاسی جماعتوں نے مختلف ادوار میں کیاہے اورنہوں نے اپنے اپنے دورمیں احتساب کاراگ بھی الاپاہے، مگراب جبکہ موجودہ دورمیں کسی حد تک احتساب کاعمل شروع ہواہے اوراسکے شکنجے میں کئی بڑی شخصیات آچکی ہیں ۔ قومی اوربین الاقوامی سطح پر کئی حقائق آشکاراہوچکے ہیں اورپاکستانی اورعالمی میڈیا نے کئی ایسے ثبوت بھی پیش کئے ہیں ، جن سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کے سابقہ حکمران انتہائی سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث رہے ہیں اورکئی شخصیات کو عدالت میں مقدمات کے بعد سزائیں بھی ہوئیں ہیں۔

کئی سیاسی شخصیات نے میڈیا پرآکراپنے قول وفعل میں تضاد سے قوم کے سامنے اپنے گھناونے چہرے بے نقاب کئے ہیں اوراخلاقی لحاظ سے اب انکے پاس اپنی صفائی پیش کرنے کاکوئی جوازبھی باقی نہیں رہاہے، مگرستم بالائے ستم یہ ہے کہ آج، پھر رنگ ، نسل ، زبان، موقف اور کردار سے بالاتر ہوکر گیارہ سیاسی جماعتوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایکدوسرے کو معصوم ثابت کرنے کی ٹھان لی ہے اورموجودہ حکومت کو پاکستان کے زوال کی اصل ذمہ دارقراردینے کی جدوجہدشروع کی ہے۔جوقائدین ایک عرصہ سے ایک دوسرے کو چور، کرپٹ اوربدعنوان کہتے تھے، آج ایک دوسرے کو بچانے کی خاطر میدان میں کودپڑے ہیں۔ اس قوم کاالمیہ یہ ہے کہ جب بھی احتساب کاعمل شروع ہوجاتاہے تومخالفین ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں ، خواہ وہ بندہ ہو، بندہ نواز ہو یامولوی ہو۔

MP Khan

MP Khan

تحریر : ایم پی خان