افغان پناہ گزین کا بھارت میں احتجاج کیوں؟

Protest

Protest

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) کئی ہزار افغان باشندے جو گزشتہ چند دہائیوں میں پناہ کی تلاش میں بھارت پہنچے، اب اپنے لیے زیادہ حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں، ایک ایسے وقت میں جب بھارت نےافغانستان سے بھاگنے والوں کو اپنے ہاں پناہ دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

بہت سے افغان مہاجرین اور پناہ کے متلاشی افغان باشندے نئی دہلی میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے دفتر برائے مہاجرین کے باہر ایک ہفتے سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر ‘سنگل مائیں‘ یا تنہا بچے کی پرورش کرنے والی مائیں شامل ہیں۔ یہ مائیں اپنے بچوں کے لیے بہتر معاشی تحفظ اور اپنے لیے بطور پناہ گزین ‘اسٹیٹس‘ یا قانونی حیثیت تسلیم کیے جانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

پناہ کے متلاشی ان افغان باشندوں میں سے بہت سے افراد کئی سالوں پہلے بھارت پہنچے تھے اور تب سے وہ اپنے گزر بسر کی جدو جہد کر رہے ہیں کیونکہ انہیں کام کی اجازت نہیں ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندوں کو بھارت میں سرکاری طور پر بطور پناہ گزین تسلیم ہی نہیں کیا گیا ہے۔ بھارت میں پناہ گزینوں سے متعلق کوئی قانون پایا ہی نہیں جاتا۔

پناہ کی تلاش میں بھارت میں داخل ہونے والے تمام افراد کو 1946ء کے ‘غیر ملکیوں کے ایکٹ‘ کے تحت غیر قانونی تارکین وطن سمجھا جاتا ہے۔ بھارت میں اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر لوگوں کی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی کرنے اور ان کے ‘اسٹیٹس‘ یا حیثیت کے تعین کی ذمہ دار ہے۔ جب تک پناہ کی درخواست پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا تب تک کے لیے ان پناہ کے متلاشی افراد کو ایک رہائشی اجازت نامہ دیا جاتا ہے۔ تاہم اس دستاویزکو جسے ‘بلیو پیپر‘ کہا جاتا ہے بھارتی حکام سرے سے رد کرتے ہیں یا ہر گز تسلیم نہیں کرتے۔

بھارت میں حکومت اور حکام کی مدد کے بغیر پناہ کے متلاشی یا تارکین وطن کے لیے مکان کرائے پر لینا یا روزگار کا حصول انتہائی مشکل ہے۔ دریں اثناء رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے طالبان کے خوف سے مفرور افغان شہریوں کے لیے ایمرجنسی ویزوں کی کارروائی شروع کر دی ہے۔

اس نوعیت کے ویزے محض چھ ماہ کے لیے ہوں گے۔ بھارت کی وزارت خارجہ کی ایک ترجمان ارندم باگچی نے مقامی نیوز ایجنسی اے این آئی کو 27 اگست کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا، ”یہ صورتحال ابھی ارتقائی مرحلے میں ہے۔ اس سلسلے میں طویل مدتی منصوبے بہترین خیال ثابت نہیں ہوئے۔‘‘

بھارت میں افغان پناہ گزین کمیونٹی کے سربراہ احمد ضیا غنی کے مطابق اس وقت قریب 21 ہزار افغان پناہ گزین بھارت میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یہ افغان باشندے ‘ریفیوجی کارڈ‘ کے منتظر ہیں تاکہ وہ طویل مدتی ویزے کی درخواست جمع کر سکیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق 11 ہزار افغان باشندے بھارت میں بطور پناہ گزین رجسٹرڈ یا اندراج شدہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان گیارہ ہزار افغان باشندوں کے کیسز سرکاری طور پر بطور مہاجرین تسلیم کیے جانے کے لیے زیر غور ہیں۔

امینہ محمد نجلہ ایک عشرہ قبل بھارت آئی تھیں۔ ان کے پاس بلیو پیپر ہے جس میں یہ درج ہے کہ ان کی پناہ کی درخواست زیر غور ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کا کیس کئی سالوں سے چل رہا ہے۔

جرمنی میں اب تک چھ لاکھ سے زائد غیر ملکیوں کو پناہ دی گئی

Indien I Afghanische Flüchtlinge protestieren in der Nähe des UNHCR in Neu Delhi
اس وقت قریب 21 ہزار افغان پناہ گزین بھارت میں مقیم ہیں

اس دستاویز کی تاریخ ختم ہونے سے پہلے یہ اس کی تجدید کرواتی رہتی ہیں۔ قبل ازیں نجلہ دہلی پہنچنے والے افغان باشندوں کے لیے مترجم کا کام انجام دیتی رہی ہیں۔ ان کا بیٹا عماد محض چھ برس کا تھا جب وہ اپنی ماں کیساتھ بھارت آیا تھا۔ وہ اب 16 برس کا ہے اور اُسے افسوس ہے کہ وہ ہائی اسکول کی تعلیم مکمل نہیں کر سکا۔ عماد کا کہنا ہے کہ ہائی اسکول کی تعیلم مکمل ہونے سے محض 6 ماہ پہلے اُسے اسکول چھوڑنا پڑا کیونکہ اُس کی فیملی اُس کی فیس ادا نہیں کر سکی۔ عماد کہتا ہے، ”میرے ملک کو امداد کی ضرورت ہے اور میں ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔‘‘

احتجاج میں سنگل مائیں اور بچے آگے

بھارت میں ہونے والے احتجاج میں سب سے زیاہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ زیادہ تر خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں کچھ پیسے افغانستان میں اپنی فیملی سے ملے تھے لیکن موجودہ صورتحال میں وہ بہت ہی کٹھن موڑ پر کھڑی ہیں۔ ایک خاتون نے حفاظتی وجوہات کے سبب نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کا شوہر افغانستان میں طالبان کا جنگجو تھا۔

افغان تارکین وطن کی جبری واپسی کے خلاف فرینکفرٹ میں مظاہرہ

Indien I Afghanische Flüchtlinge protestieren in der Nähe des UNHCR in Neu Delhi
نئی دہلی میں قائم یو این ایچ سی آر کے دفتر کے باہر مظاہرہ

اب وہ دہلی میں اپنی جوان بیٹیوں کے ساتھ رہ رہی ہے، آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ بہت سی خواتین نے بتایا کہ افغانستان میں ان کی زبردستی شادی کی گئی۔ ایک اور خاتون ناجیہ صمادی 2017ء میں اپنی جوان بیٹی کے ساتھ بھارت آئی تھیں۔ یہ نوکری کی تلاش میں ہیں اور اپنی بیٹی کے مستقبل کے لیے فکر مند ہیں۔

بہت سے پناہ گزین کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر نے امریکا یا کینیڈا جیسے ممالک جا کر دوبارہ سے آباد ہونے کے ان کے خواب کو پورا ہونے کے لیے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ ان افراد نے ایک اہم نکتے کی طرف نشاندہی کی، وہ یہ کہ اقوام متحدہ کی یہ ایجنسی وہ واحد ادارہ ہے جو ایک ”سپورٹ لیٹر‘‘ جاری کر سکتا ہے جو تمام سفارتخانے ویزوں کی درخواست پر مناسب طریقے سے کارروائی کرتے وقت طلب کرتے ہیں۔

افغان مہاجرین کی جرمنی سے وطن واپسی کا معاہدہ

Indien I Afghanische Flüchtlinge protestieren in der Nähe des UNHCR in Neu Delhi
یو این ایچ سی آر کی طرف سے بلیو کارڈ ان مہاجرین کو ملا ہوا ہے

اصل وجہ کیا ہے؟

بھارت کی پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی نہایت غیر واضح اور غیر موافق ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کے 1951ء کے پناہ گزین کنونشن اور 1967ء کے پناہ گزینوں کی حیثیت سے متعلق پروٹوکول کا دستخط کنندہ نہیں ہے۔ بھارت مختلف ممالک اور خطوں کے پناہ گزینوں کے ساتھ مختلف رویہ رکھتا ہے۔ اس کے مختلف سلوک کی بنیاد یا تو پناہ گزینوں کے ممالک کیساتھ تعلقات ہوتے ہیں یا وہ اپنی داخلہ پالیسی پر اچھی طرح غور کرنے کے بعد فیصلہ کرتا ہے کہ کس ملک کے باشندوں کو پناہ کے متلاشی کی حیثیت دینی ہے اور کس کو نہیں۔ مثال کے طور پر بھارتی حکومت تبت اور سری لنکا کے باشندوں کی مدد کرتی ہے مگر روہنگیا مسلمانوں کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کرتی ہے۔