افغان سکیورٹی فورسز نے جلال آباد جیل کا کنٹرول حاصل کر لیا

Afghan Security Forces

Afghan Security Forces

جلال آباد (اصل میڈیا ڈیسک) افغان حکام نے کہا ہے کہ ننگر ہار کے شہر جلال آباد کی اس جیل کا کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے، جس پر اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے حملہ کیا تھا۔ ایک دن کی خونریز جھڑپوں کے بعد افغان سکیورٹی فورسز کو یہ کامیابی ملی۔

افغان حکام نے بتایا ہے کہ جلال آباد کی مرکزی جیل پر حملہ کرنے والے انتہا پسندوں کو پسپا کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دن بھر کی کارروائی کے نتیجے میں انتالیس افراد ہلاک ہوئے جبکہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو جیل میں قید اپنے چار سو فائٹرز کو رہا کرانے میں کامیاب ہو گئے۔

صوبہ ننگر ہار کے شہر جلال آباد کی اہم جیل پر اتوار کی علی الصبح کیا گیا یہ حملہ اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ افغانستان میں ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کی موجودگی اس شورش زدہ ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے۔

طالبان اور امریکا کے مابین امن ڈیل کے تحت امریکی اور نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلا کے بعد اس وسطی ایشیائی ملک میں اس جہادی تنظیم کی کارروائیوں سے تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ننگر ہار کے حکام نے بتایا ہے کہ جیل پر حملے کے دوران کم ازکم دس جہادیوں کو بھی ہلاک کیا گیا۔ صوبائی کونسل کے ممبر اجمل عمر نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں کہا کہ باقی ماندہ ہلاک ہونے والوں میں جیل کے قیدی، شہری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہیں۔ تاہم اس بارے میں کوئی سرکاری اعدادوشمار جاری نہیں کیے گئے ہیں۔

اس حملے میں پچاس افراد زخمی بھی ہوئے، جن کا علاج کیا جا رہا ہے۔

اس حملے میں پچاس افراد زخمی بھی ہوئے، جن کا علاج کیا جا رہا ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق کچھ زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ جلال آباد کے ہسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے۔

حکام نے بتایا ہے کہ جیل حملے میں ہلاک شدگان میں کم از کم تین طالبان بھی تھے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ طالبان اور ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین ایک نئی عسکری کشمکش شروع ہو سکتی ہے۔

اجمل عمر نے کہا ہے کہ حملے کے وقت اس جیل میں پندرہ سو کے لگ بھگ قیدی موجود تھے، جن میں سے چار سو تیس اپنی اپنی بیرکوں میں چھپ گئے تھے۔

اس حملے کا مقصد جہادیوں کو جیل سے رہا کرانا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس کارروائی سے داعش کے جنگجو جیل میں قید چار یا پانچ اہم سنیئر جہادیوں کو آزاد کرانے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ننگرہار صوبے میں داعش کے جنگجوؤں کی موجودگی کافی زیادہ ہے تاہم اس صوبے مین ان جنگجوؤں کی تعداد کے بارے میں مصدقہ اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔