افغانستان میں آسٹریلوی فوجیوں کے مبینہ جنگی جرائم، بے نقاب کرنے والا صحافی تفتیش سے بری

Australian Troops

Australian Troops

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں آسٹریلوی فوجیوں کے مبینہ جنگی جرائم بے نقاب کرنے والے صحافی کے خلاف تفتیشی عمل ترک کر دیا گیا ہے۔ ‘افغان فائلز میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ آسٹریلوی فوج کے ارکان نے نہتے افراد بشمول بچوں کو قتل کیا تھا۔

افغانستان میں آسٹریلوی فوجی دستوں کے مبینہ جنگی جرائم کا پردہ فاش کرنے والے ایک صحافی کے خلاف جاری تفتیشی عمل ختم کر دیا گیا ہے۔ وفاقی پولیس نے کہا ہے کہ استغاثہ کو آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن (ABC) سے وابستہ صحافی ڈینیل اوکس کو قصور وار قرار دینے کے لیے کافی شواہد ملے لیکن ان کے خلاف ایکشن لینا شاید عوامی مفاد میں نا ہوتا۔ اسی لیے کافی طریل عرصے سے جاری تفتیشی عمل ترک کر دیا گیا ہے۔

ڈینیل اوکس کے خلاف تفتیش ختم کرنے کا فیصلہ اے بی سی کی جانب سے ‘افغان فائلز کی اشاعت کے لگ بھگ تین برس بعد سامنے آیا ہے۔ ان دستاویزات کے ذریعے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ افغانستان میں آسٹریلوی فوج کے چند ارکان نے نہتے افراد بشمول بچوں کو قتل کیا۔ پولیس، ڈینیل اوکس اور ان کے پروڈیوسر سیم کلارک کے خلاف تفتیش کر رہی تھی کہ انہوں نے حکومت کی انتہائی خفیہ دستاویزات کیسے حاصل کیں۔ اسی سلسلے میں گزشتہ برس پولیس نے اے بی سی کے دفتر پر چھاپہ بھی مارا تھا۔

ڈینیل اوکس کے خلاف تفتیشی عمل ختم کرنے کے فیصلے پر اے بی سی کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈیوڈ اینڈرسن نے اطمینان کا اظہار کیا ہے مگر ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکام کو یہ فرد جرم عائد ہی نہیں کرنا چاہیے تھی۔ ان کے بقول صحافت کے لیے یہ ایک پریشان کن اور مایوس کن تجربہ رہا۔ دوسری جانب پولیس نے بتایا کہ عوامی مفاد اور صحافت کی عوام میں اہمیت جیسے بہت سے عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ملکی جمہوری اقتدار کا خیال رکھتے ہوئے مذکورہ صحافی کے خلاف تفتیش ترک کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔

آسٹریلیا میں گزشتہ برس جب اے بی سی کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا تھا، تو اس سے ایک روز قبل ہی روپرٹ مرڈوخ نیوز کارپوریشن کے ایک رپورٹر کے گھر کی بھی تلاشی لی گئی تھی، جس کی وجہ دو سال قبل چھپنے والا ایک آرٹیکل تھا، جس میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ حکومت اپنے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے آسٹریلوی شہریوں کی جاسوسی کرنا چاہتی ہے۔ البتہ یہ کیس بھی اسی سال ختم کر دیا گیا تھا۔ گو کہ اب یہ دونوں کیس اور ان کے سلسلے میں تفتیشی عمل ختم کیا جا چکا ہے مگر ان کیسز کی وجہ سے آسٹریلیا میں آزادی صحافت کے معیار پر ایک بحث چھڑ گئی تھی۔

اگرچہ آسٹریلیا میں آزادی صحافت پر کوئی خاص قدغنیں نہیں تاہم سلامتی سے متعلق قوانین، عدالتی احکامات اور بدنامی سے بچنے کے لیے سخت قوانین اکثر صحافت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان واقعات کے بعد تمام آسٹریلوی نشریاتی ادارے اپنے اختلافات دور کرتے ہوئے صحافت کے تحفظ کے لیے متحد ہو گئے تھے۔