افغانستان میں ناکامی کا جواب یورپی یونین کی مشترکہ فوج نہیں: تبصرہ

European Union

European Union

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) یورپی یونین کی سریع الحرکت فوج کا کوئی فوری اقدام بھی مغرب کی افغانستان میں ناکامی کو روک نہیں سکتا تھا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یونین کی رکن ریاستیں نیٹو میں اپنی موجودگی کو مزید مضبوط کرنے پر توجہ دیں۔

افغانستان میں پیدا شدہ افراتفری کی صورت حال کی روشنی میں یورپی یونین کے وزرائے دفاع اور خارجہ کسی بھی مقام پر مداخلت کر سکنے والی خود مختار اور مشترکہ فوج کی ضرورت کو اہم قرار دے رہے ہیں۔ پہلے ہی بیس برسوں سے ایسی فوج کی ضرورت کی گفتگو جاری ہے کہ جو امریکی امداد کے بغیر دنیا کے کسی بھی علاقے میں عسکری نوعیت کا مشن شروع کر سکے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسا اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔

اس کی ایک وجہ تو رکن ریاستوں میں سیاسی ہمت و قوت کی کمی رہی ہے۔ دوسری وجہ یہ ایک بھاری اخراجات کا حامل ہونے کے علاوہ یہ ایک پیچیدہ فوجی معاملہ ہو سکتا ہے۔ جہاں تک زبانی کلامی اور کاغذ پر لکھی تحریر کا حوالہ دیا جائے تو یہ بلاک ایک مشترکہ دفاعی پالیسی رکھتا ہے لیکن عملی طور پر کچھ بھی نہیں۔

اس مقصد کے لیے یورپی دفاعی ایجنسی کا باقاعدہ دفتر بھی موجود ہے لیکن یہ دفتر زیادہ تر طاق پر رکھے جانے والے پراجیکٹس پر غور و فکر کرتا ہے اور ان کے قابل عمل ہونے کی صرف ریسرچ رپورٹس مرتب کرتا ہے۔

اس تناظر میں یہ بھی اہم ہے کہ یورپی یونین میں مشترکہ کمان کا کوئی بامعنی ڈھانچا بھی موجود نہیں ہے جبکہ رکن ریستوں کی حکومتیں ملکی دفاع کی ذمہ داری خود سنبھالے ہوئے ہیں۔ اندازے لگائے گئے ہیں کہ اگلے برسوں میں بھی اس پہلو میں کوئی عملی صورت سامنے نہیں آئے گی اور اس کی سب سے بڑی وجہ ریاستوں میں سیاسی جذبے کی کمی ہے۔

بظاہر افغانستان سے امریکا اور مغربی دفاعی اتحاد کا انخلا ایک باعث صدمہ بات تھی اور کیا اس کا کوئی اثر ہو گا؟ یہ درست ہے کہ افغانستان میں یورپی یونین کا کئی اپنا مشن موجود نہیں تھا لیکن نیٹو کا ایک مشن امریکی قیادت میں موجود تھا اور اس میں شامل نیٹو میں یورپی اقوام کی فوجیں شامل تھیں۔ یہ حیران کن نہیں ہے کہ افغانستان جیسا بڑا عسکری مشن یقینی طور پر صرف امریکی فوج ہی جاری رکھ سکتی ہے۔

افغانستان میں مسئلہ یہ رہا کہ ایک مقررہ تاریخ پر امریکا اور نیٹو، جس کی رکن یورپی ممالک ہیں، کی افواج نے زمینی حقائق کو سامنے رکھے بغیرغیر مشروط انخلا کا فیصلہ کیا۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن اور ان سے قبل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک جیسی پالیسی میں تسلسل رکھا کہ افغانستان میں فوجی کارروائیوں کے حوالے سے نیٹو کے اتحادیوں سے مشاورت کی ضرورت نہیں سمجھی اور جو فیصلہ کیا، اس پر عمل شروع کر دیا۔

اب ان حالات میں دونوں کے حصے میں ناکامی آئی ہے۔ اس صورت حال میں یورپی یونین کو مستقبل میں اپنی جگہ پر کوئی فیصلہ لینے میں کئی دہائیاں نہیں تو بہت سارے سال درکار ہیں۔

یورپی یونین کا ایک مشترکہ فوج کھڑی کرنے کا خیال خواب ہی رہے گا کیونکہ جس انداز میں سوچا جا رہا ہے، وہ قابل عمل نہیں۔ اب یہ ضروری ہے کہ یورپی یونین مغربی دفاعی اتحاد میں اپنی موجودگی کو ہی بہتر بنائے اور اسے مضبوط خطوط پر استوار کرے۔

اس تناظر میں یہ ضروری ہے کہ یونین کی رکن ریاستیں اسلحہ سازی کے حوالے سے اپنے موقف میں یکسانیت پیدا کریں، عسکری تربیت اور قیادت پر بھی توجہ مرکوز کی جائے تا کہ مستقبل میں بہتر فیصلہ سازی ممکن ہو سکے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ نیٹو میں یورپی ممبران کی افواج غیر فعال، مہنگی اور بیوروکریٹک حصار میں ہیں اور خود سے کوئی فیصلہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

اب یہ ضروری ہے کہ مستقبل میں یورپی یونین کے رکن ملکوں کے دفاعی شعبوں کی انٹیلیجنس کی استعداد بڑھائی جائے، اسے ڈرونز سے مالا مال کیا جائے اور کسی بھی مقام سے افراد کے ہنگامی انخلا کو ممکن بنانے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے۔ اس اضافے کے باوجود یورپی یونین کی فوجی طاقت کسی بھی صورت میں امریکی عسکری قوت سے علیحدہ نہیں ہو سکتی۔

دوسری جانب جرمن فوج کا خیال ہے کہ مستقبل میں کسی بھی عملی اقدام کے لیے مرتکز ایکشن پر فوکس ضروری ہے اور اس کی بدولت مناسب بروقت عملی فیصلہ سازی ممکن ہو سکے گی۔