افغانستان، عراق اور لیبیا میں مغرب کی ناکامیاں

US Air Force Fighter Jet

US Air Force Fighter Jet

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں صرف مغربی مداخلت ناکام نہیں ہوئی بلکہ عراق اور لیبیا میں بھی اس پالیسی کے خاطر خواہ فوائد سامنے نہیں آسکے۔

افغانستان سے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے کچھ ممالک کی فوجیں پہلے ہی رخصت ہوچکی ہیں اور باقی اپنا ساز وسامان سمیٹ رہی ہیں۔ لیکن غیر ملکی فورسز اپنے پیچھے جو ملک چھوڑ کر جارہی ہیں، وہ آج بھی مستحکم جمہوری نظام سے کوسوں دور ہے۔

اس ملک کا وسیع تر علاقہ دوبارہ طالبان کے زیر کنٹرول آچکا ہے۔ مغرب کے سیاستدانوں اور پالیسی ساز حلقے کو ایک بار پھر یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی خطے کے سیاسی مستقبل کے فیصلے محض کاغذوں پر طے نہیں کیے جا سکتے۔

مثال کے طور پر سن 2004 میں منظور کیا گیا، روشن خیال اور ترقی پسند نظر آنے والا افغانستان کا آئین، حقیقیت میں بالکل غیر مؤثر رہا ہے۔

افغانستان ایسا واحد ملک نہیں جہاں مغربی ممالک اپنے ہی مقرر کردہ اہداف حاصل نہیں کرسکے۔ عراق بھی ایک ایسا ہی ناکام امیدوں کا ملک ہے جہاں امریکی مداخلت کی توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔

نومبر سن 2003 میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا تھا، ”مشرق وسطیٰ کے قلب میں آزاد عراق، عالمی جمہوری انقلاب کا ایک اہم موڑ ہوگا۔‘‘ آج عراق اپنے طاقتور ہمسایہ ایران سے اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

لیبیا میں بھی نیٹو نے اس وقت کے آمر معمر القذافی کے اقتدار کے خاتمے کی حمایت کی تھی لیکن اس سے منسلک امیدیں بھی پوری نہ ہوسکیں۔

امریکی صدر باراک اوباما، فرانسیسی صدر نکولاس سارکوزی اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے سن 2011 میں ایک مشترکہ پالیسی میں لکھا تھا، ”اس مداخلت کے بعد ہی لیبیا میں آمریت سے حقیقی جمہوریت تک اقتدار کی منتقلی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔‘‘

لیکن قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک دس سالہ جنگ کا شکار ہوگیا۔ رواں برس ہی متحارب قومی جماعتیں آئین اور پارلیمانی انتخابات کرانے پر متفق ہوسکی ہیں۔

قیام امن اور تنازعات پر تحقیق کرنے والے جرمن محقق کونراڈ اشٹیٹر نے اپنے مطالعے ‘افغانستان کی تاریخ‘ میں اُن مشکلات کا خلاصہ بیان کیا ہے، جن کی وجہ سے مغربی ممالک اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہے۔

اشٹیٹر نے دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ افغانستان میں دور دراز کے دشوار گزار علاقے، شہر اور دیہات کے درمیان تنازعات، فرقہ پرستی، متنوع ثقافتوں اور طبقاتی نظام پر مبنی معاشرے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔

اشٹیٹر لکھتے ہیں، ”ایک طرف شہری معاشروں میں انسانی حقوق، جمہوریت کے نفاذ اور خواتین کے لیے مساوی حقوق جیسے اصولوں پر تیزی سے عملدرآمد نہیں کرایا جاسکا تو دوسری طرف دیہی آبادی کا زیادہ تر حصہ اِن اقدار کو غیراسلامی سمجھتا رہا ہے۔ اسی وجہ سے طالبان خاص طور پر جنوبی افغانستان کے دیہی علاقوں میں وسیع حمایت کے لیے پرامید دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

اسلامک اسکالر اشٹیفان وائڈنر بھی اس مؤقف کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان سے اب مذاکرات کرنا، شکست کے مترادف ہے۔ وائڈنر کے مطابق مغربی ممالک نے نہ صرف افغانستان بلکہ لیبیا اور عراق میں بھی بہت بلند اور خیالی اہداف مرتب کیے تھے۔

بھاری سرمایہ کاری کے غیر واضح نتائج
اپنے اہداف کے حصول کے لیے مغربی ریاستیں اور بین الاقوامی ادارے بھاری سرمایہ کاری کرچکے ہیں، جو کہ فوجی انخلا کے بعد بھی جاری رہیں گی۔

گزشتہ برس نومبر میں افغانستان کی مالی اعانت کے لیے آن لائن کانفرنس کے دوران 10.1 ارب یورو کی امداد اکٹھا کی گئی۔ یہ رقم آئندہ چار سالوں کے دوران ادا کی جائے گی۔

ماہرین کے مطابق اس امدادی رقم کا صرف ایک مختصر حصہ مقامی آبادی کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال ہوتا ہے کیونکہ ملازمین، دفاتر، اور سکیورٹی کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر ڈینیئل گیرلاخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب کسی مغربی ملک کا کوئی اعلیٰ سفارت کار کسی منصوبے کا دورہ کرنے جاتا ہے تو اس کی سکیورٹی کے علاوہ دیگر اخراجات یومیہ ہزاروں یورو سے تجاوز کرجاتے ہیں۔

گیرلاخ کا کہنا ہے کہ غیر ملکی افواج افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک میں ایک مخصوص حد تک ہی کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں۔ ان کے بقول، ”خاص طور پر افغانستان میں رات کے اندھیرے کے دوران طالبان جنگجو گاؤں گاؤں جا کر مقامی آبادی پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اگر وہ ان کے کام نہ کریں تو ان کو مزید دھمکایا جاتا ہے۔‘‘

گیرلاخ نے بتایا کہ چند برس قبل عراق میں بھی اسی طرح کی صورتحال تھی، ”دن کے وقت غیر ملکی فورسز کا کنٹرول ہوتا تھا اور رات میں داعش کے جنگجو ڈراتے تھے۔‘‘

عراق میں بھی مغربی طاقتوں نے کئی بنیادی غلطیاں کیں۔ عراق میں سن 2003 کے دوران اتحادیوں کی مداخلت کے بعد امریکی سول ایڈمنسٹریٹر پول بریمر نے ایسے کئی فیصلے کیے، جن کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہوا۔

مثال کے طور پر انہوں نے سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کی، صدام حسین کی بعث سیاسی جماعت کے ساتھ ساتھ عراقی افواج کو بھی ختم کردیا۔

ماہرین کے مطابق ہزاروں افراد نے ان اقدامات کو بنیادی طور پر معاشی لوٹ مار تصور کیا تھا۔ لہٰذا ملک کا ایک بڑا حصہ غیر ملکی مداخلت کے خلاف غصے اور مایوسی کی وجہ سے القاعدہ اور داعش جیسے جہادی گروپوں کی طرف راغب ہونے لگا۔

بعد ازاں دہشت گروہوں کی جانب سے عراق میں بھرپور پرتشدد کارروائیاں کی گئیں۔ اشٹیفان وائڈنر کے مطابق اگر کچھ عراقی حلقوں کو اتحادیوں کے طور پر استعمال کیا گیا ہوتا تو شاید مغربی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کم دیکھی جاتی۔