افغانستان میں سیاسی خودمختاری کے خلاف فوجی اور سیاسی مداخلت

Afghan Taliban Talks

Afghan Taliban Talks

تحریر : قادر خان یوسف زئی

افغانستان مشاورتی کونسل لویہ جرگہ نے افغان طالبان کے باقی ماندہ400قیدیوں کی باقاعدہ مشروط قرارداد منظور کرکے بین الافغان مذاکرات کے انعقاد کے لئے پہلی رکاؤٹ دور کردی۔ذرائع کے مطابق چند دنوں میں دوحہ قطر میں افغان طالبان کے وفد اور افغانستان کے سیاسی و مذہبی امن پسند اسٹیک ہولڈر کے ہمراہ غیر رسمی کابل حکام بھی مذاکرات میں شرکت کریں گے۔ امریکا کے ساتھ20برس کی طویل جنگ نے پورے خطے میں امن کی صورتحال کو متاثر کئے رکھا۔ امریکا اپنے عالمی مفادات کے ساتھ افغانستان کی سرزمین پر اترا، لیکن حسب منشا امریکی خواہشات، کامیابی کی فتح میں تبدیل نہ ہو سکیں۔ پاکستان نے ایک بار پھر امریکی مفادات کے لئے زمینی راستے و فضائی حدود امریکی و نیٹو افواج کے لئے کھول دیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے امریکا، شکست سے دوچار ہوتا چلا گیا، اس کی فرسٹریشن میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور امریکی انتظامیہ و اسٹیلشمنٹ نے اپنا غصہ پاکستان پر اتارنے کی کوشش کی اور ماضی کی حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لئے عسکری امداد، تعمیر نو کے منصوبوں میں فنڈز کی کٹوتی، دہشت گردی سے پاکستان معیشت و عوام کو نقصان پہنچنے پر فنڈز کو روکنا، نیز پاکستان کو اپنے ازلی دشمن بھارت کے مقابلے میں کمزور کرنے کی کوشش میں بھارت کے ساتھ متنازعہ معاہدے و قربتوں کے ساتھ پاکستان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا گیا۔

پاکستان نے روسی استعمار کے خلاف امریکی اتحادی بن کر مملکت میں شدت پسندوں کو قدم جمانے کا موقع فراہم کیا تھا، عالمی سازش کے تحت مملکت کو اس طور الجھا دیا گیا تھا کہ داخلی طور پر جہادی تنظیموں نے اپنی شاخوں کو مضبوط کیا اور پھر سوویت یونین کی شکست کے بعد افغانستان کو وقت سے پہلے چھوڑنے اور عالمی معاہدے کی پاسداری نہ کئے جانے کے باعث بدترین خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔ سوویت یونین بدترین شکست کے باعث شیرازہ بکھرنے سے خود کو روک نہ سکا اور سوویت یونین کے بطن سے کئی مملکتیں وجود میں آئیں۔ تاہم دوسری جانب پاکستان میں کلاشنکوف کلچر و ہیروئین کے سیلاب نے نوجوان نسل کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا۔ سوویت یونین کے انخلا ء کے بعد افغانستان میں جہادی گروپوں کے درمیان زبردست خانہ جنگی کے ردعمل میں مدارس کے طلبا ء ایک ایسی جماعت ابھری جس نے انتہائی قلیل وقت میں افغانستا ن سے نہ صرف خانہ جنگی کا خاتمہ کیا بلکہ عالمی منشیات و نوادرات کی اسمگلنگ کو صفر کردیا۔ تاہم قدامت پسندی میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے، جس سے کی وجہ سے عالمی قوتوں کو خطرہ لاحق ہوا کہ اگر افغان طالبان اسی طرح پھیلتے چلے گئے تو کیمونزم کا مقابلہ کرتے کرتے، انہیں اسلامسٹ سے لڑنا ہوگا اوراس اَمر سے بخوبی آگاہ تھے کہ ماضی کی صلیبی جنگوں میں انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں تاریخ ساز شکست و ندامت کا سامنا ہوا تھا، جسے وہ آج تک نہیں بھلا سکے۔

نائن الیون کے واقعے کو بنیاد بنا کر افغانستان کی روایات و ثقافت کے خلاف امریکا، جو کل تک افغان طالبان کی پالیسیوں کا حامی تھا، مخالفت میں اتنا آگے بڑ ھ گیا کہ ہمیشہ امریکی مفادات کا فرنٹ اتحادی بننے والے ملک پاکستان کو بھی کھنڈرات بنانے کی دھمکی دے ڈالی۔ افغانستان جو پہلے ہی خانہ جنگی کے سبب انفرا اسٹرکچر کی تباہی و بربادی کا شکار تھا، جدید جنگی ساز و سامان سے محروم، دنیا کی جدید اسلحوں و فضائی حملوں میں بے گناہ عوام کی شہادتوں پر جنگی حکمت عملی کے تحت پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا اور غیر ملکی افواج کو زمین پر دوبدو جنگ کے لئے آنے کا انتظار کرنے لگا، امریکا و نیٹو افواج ایک فاتح کی صورت میں افغانستان کی سرزمین پر قدم رکھنا چاہتے تھے، لیکن انہیں اس کا بالکل ادارک نہیں تھا کہ دراصل وہ اپنے فوجیوں کے قبرستان میں قدم رکھ رہے ہیں، زمینی جنگ کا آغاز ہوتے ہی پیدائشی جنگجوؤں نے غیر ملکی افواج کے جدید ترین اسلحے و انتہائی تربیت یافتہ مسلح افواج کو تخت مشق بنانا شروع کردیا اور ہزاروں غیر ملکی فوجی خودکشیوں سمیت ذہنی مریض بن کر جب اپنے خاندانوں میں جاتے تو اپنے اہل خانہ کو ایک ایسی قوم کے بارے میں چشم دید واقعات سے آگاہ کرتے جو دنیا بھر کی عالمی طاقتوں کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل رہے تھے۔

افغانستان، غیر ملکی فوجیوں کا افغان طالبان کے شکار بننے لگے اور پھر امریکا کو احساس ہونے لگا کہ اُس کے تمام اندازے غلط ثابت ہوچکے ہیں، اہداف کے حصول میں کھربوں ڈالر کے ضیائع و کامیابی نہ ہونے پر امریکی عوام نے اپنی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا یہاں تک دفاعی تجزیہ نگاروں اور ماہرین نے واضح طور پر پیش گوہی کردی کہ امریکا، افغانستان کی جنگ مکمل طور پر ہار چکا ہے اور اُسے افغانستان سے نکلنے کے لئے محفوظ راستے کی تلاش ہے اور وہ افغانستان میں اس طرح نکلنا چاہتا ہے کہ جیسے وہ افغانستان کا واحد فاتح ہو۔ لیکن امریکی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے اور چشم فلک نے وہ نظارہ دیکھا کہ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا دعویدار افغان طالبان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا اور بالآخر 19 سالہ طویل جنگ کے بعد امریکا امارت اسلامیہ کے ساتھ دوحہ میں معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا۔

امریکا کے لئے دوسری شرمندگی کا مقام یہ بھی تھا کہ پاکستان کو ڈومور و اقتصادی دباؤ کے تحت منشا کے مطابق اپنے فروعی مفادات کی تکمیل کے لئے غرور میں مبتلا، اسی پاکستانی ریاست سے اپنے فوجیوں کو باحفاظت واپس لے جانے کے لئے مرکزی کردار ادا کرنے کا خواستگار ہوا۔ امریکا نے اوّل بھارت پر بھاری سرمایہ کاری کہ کسی طرح بھارت، افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کردے، لیکن بھارت اچھی طرح جانتا تھا کہ اُس سے نہتے کشمیری سنبھالے نہیں جارہے اور ایک وادی میں 9لاکھ قابض فوج پتھروں کا مقابلہ بھاری جدید ہتھیاروں سے کرنے میں ناکام ہیں، اگر وہ افغانستان میں داخل ہوگئے تو کشمیر ہی نہیں پورے بھارت سے محروم ہوجائیں گے اور ماضی کی طرح افغان مسلم حکمرانوں کے دہلی کے تخت کی صفائی ستراھائی کرتے نظر آئیں گے، ہندو بزدل شدت پسند ماضی کو نہیں بھولے تھے کہ مسلمانوں میں لاکھ اختلافات ہوں لیکن ایک ایسا موقع ضرور آتا ہے کہ دین اسلام کے نام پر ایک جسم بن جاتے ہیں، تاہم سازشوں کے ماہر ہندو توا کے سرپرستوں نے ہرممکن کوشش کی کسی بھی طرح خطے میں امن کی کوششوں کو ناکام بنایا جاتا رہے تاکہ وہ عدم استحکام کی صورتحال کا فایدہ اٹھا کر افغانستان کے قدرتی خزانوں و وسائل کو امریکا کے ساتھ مل کر لوٹ سکے۔

امریکا کو پہلے سے ہی اپنی ناکامی کا یقین تھا۔لیکن کوشش ان کی یہ تھی کہ ان کے ہاتھو ں تشکیل پانے والی کابل انتظامیہ کو امارت اسلامیہ سے ایک حکومت کے طور پر تسلیم کروائیں اور پھر ان کے ساتھ ہی امارت اسلامیہ مذاکرات کیلیے بیٹھ جائے۔ لیکن ان کا یہ مشن ناکام ہوا اور بالآخر 29 فروری 2020 ء کو قطر کے دارلحکومت دوحہ شیراٹن ہوٹل میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ جس میں امریکا نے اپنی ناکامی کا اعتراف اور افغانستان سے مکمل انخلاء کی یقین دہانی کروائی۔ اس معاہدے پر مسلمانوں کی جانب سے امارت اسلامیہ کے سیاسی رہبر ملا عبدالغنی برادر جبکہ امریکا کی جانب سے امریکا کے وزیر خارجہ مائک پومپیو کی موجودگی میں ان کے نمائندے زلمی خلیل زاد نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے مطابق امریکا پابند ہوچکا ہے کہ وہ اور ان کے اتحادیوں کی تمام مسلح فوجیں،تمام غیر سفارتی عملہ،انفرادی سیکورٹی کے غیر مسلح افراد، فوجی ٹرینرز،مشیران اور بنیادی سروسز فراہم کرنے والے عملے سمیت اس معاہدے کے اعلان کے 14 ماہ کے اندر افغانستان سے نکل جائیں گے۔ معاہدے کے بعد امریکی پانچ فوجی اڈے خالی کرچکا ہے اور کئی ہزار امریکیوں کو واپس بلا چکا ہے۔ امریکا پابند ہوا کہ5 ہزار امارت اسلامیہ کے قیدی جبکہ 1 ہزار افغان فورسز کے قیدی 10مارچ 2020ء تک رہاکیے جائیں تاکہ 10 مارچ کو بین الافغانی مذاکرات شروع کیے جاسکیں۔ لیکن امریکا نے پس پشت رہ کر پہل کوشش کی، افغان طالبان و غنی انتظامیہ الجھ جائیں لیکن چھ مہینے کی مشقت کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور بالاآخر آخری عذر لویہ جرگہ بھی امیدوں پر پورا نہ اتر سکا۔

امریکا پابند ہوا کہ بین الافغانی مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی امریکا امارت اسلامیہ کے رہنماوں کے خلاف امریکی پابندیوں، اور ان کے سروں پر مقرر کردہ انعام کے بارے میں دیے گئے نوٹفکیشن پر نظرثانی کرے گا اور یہ پابندیاں 16اگست 2020ء تک ہٹالی جائیں گی۔بین الافغانی مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی امریکا، اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل اور اس کے اراکین افغانستان سے امارت اسلامیہ کے رہنماوں کے نام 17 مئی 2020 ء تک بلیک لسٹ سے نکالنے کے لیے سفارتی کوششیں کریں گے۔ لیکن غنی انتظامیہ کے ساتھ مل کر تاخیر حربوں کے باعث ابھی تک اس شق پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے، دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کا تعارفی دور شروع ہونے کے بعد امریکا پر دباؤ میں اضافہ ہوگا کہ وہ اپنے وعدے کی تکمیل کرے۔ امریکا پابند ہوا کہ وہ اور اس کے اتحادی افغانستان کی زمین خودمختاری اور سیاسی خودمختاری کے خلاف فوجی اور سیاسی مداخلت نہیں کریں گے اور نہ وہ افغانستان کے داخلی امور میں مداخلت کرنے کے مجاز ہوں گے۔

یہ افغان طالبان کی واضح فتح تھی۔ افغان طالبان نے اپنے ماضی کے موقف پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور اپنے اس عزم کو تحریری شکل میں منتقل کیا کہ افغان طالبان امریکا کے لیے مستقبل میں خطرہ نہیں بنیں گے اور نہ افغانستان میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت دیں گے جو امریکا کے لیے خطرہ ہوں۔

متن کے مطابق: ۱۔ امارت اسلامیہ افغانستان اپنے کسی رکن یا القاعدہ کے کسی رکن کو اجازت نہیں دے گی کہ افغانستان کی سرزمین امریکا کے خلاف استعمال کرے۔ ۲۔ امارت اسلامیہ افغانستان ایک واضح پیغام جاری کرے گی جس میں کہا جائے گا کہ ہر وہ شخص جو امریکا کے خلاف ہماری سرزمین استعمال کرنا چاہتا ہو اس کے لیے افغانستان میں کوئی جگہ نہیں۔امارت اسلامیہ اپنے ارکان کو ہدایت دے گی کہ ان افراد اور تنظیموں سے تعلق نہ رکھیں جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سیکورٹی کو چیلنج کرتے ہوں۔۳۔ امارت اسلامیہ افغانستان معاہدے میں کیے گئے وعدوں کے مطابق افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سیکورٹی کے لیے خطرہ بننے والے ہر فرد اور تنظیم کی راہ روک لے گی۔ اس کی تربیت اور مالی امداد پر پابندی ہوگی۔ ۴۔ امارت اسلامیہ افغانستان یہ وعدہ کرتی ہے کہ وہ لوگ جو افغانستان میں پناہ لینا یا یہاں مستقل رہنا چاہتے ہیں ان کیساتھ مہاجرین کے بین الاقوامی قوانین اور معاہدے میں بیان کیے گیے نکات کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ تاکہ یہ لوگ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سیکورٹی کے لیے خطرہ نہ بنیں۔ امارت اسلامیہ افغانستان، افغانستان آنے کے لیے کسی ایسے فرد کو ویزہ اور پاسپورٹ جاری نہیں کرے گی، جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سیکورٹی کو چیلنج کرتا ہو۔

افغان طالبان نے برابری کی سطح پر امریکا کو مذاکراتی عمل میں بھی شکست فاش دی، تاہم اب ان کا سامنا اپنے ہم وطنوں سے ہوگا اور بین الافغان مذاکرات کے دو ایجنڈے قابل ذکر ہیں، جنگ بندی و افغانستان کا مستقبل۔ توقع ہے کہ اس پر بیک ڈور کافی کام کیا جاچکا ہے اور آنے والا افغانستان امن کی نوید لے کر آئے گا۔ تحفظات ضرور ہیں کہ بین الافغان مذاکرات جلد فیصلے و اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد پر نہیں پہنچ سکیں گے تاہم یہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے ساتھ زیادہ درد سر مذاکرات ثابت بھی ہوسکتے ہیں، لیکن فریقین کے درمیان درمیانی راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں لہذا افغانستان میں امن، جنگ بندی و عوام کی خواہش پر مبنی نظام خطے ہی نہیں دنیا کے حق میں بہتر ہے۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی