افغانستان: طالبان کے حملے میں کم از کم ایک درجن افغان پولیس اہلکار ہلاک

NATO Forces

NATO Forces

کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں طالبان کے حملوں میں کم از کم ایک درجن افغان پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ طالبان نے یہ حملے ایسے وقت کیے ہیں جب امریکا اور نیٹو ممالک نے جنگ زدہ ملک افغانستان سے اپنی افواج کا انخلاء شروع کر دیا ہے۔

افغانستان میں غیر ملکی فورسز کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر نے کہا ہے کہ امریکی اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فورسز کا انخلاء شروع ہو گیا ہے اور فوجی اڈے اور جنگی آلات افغان فوج کے حوالے کرنے شرو ع کر دیے گئے ہیں۔ یہ اقدامات امریکی صدر جو بائیڈن کے افغانستان میں طویل ترین امریکی جنگ کے خاتمے کے فیصلے کے تحت کیے جا رہے ہیں۔

طالبان نے اتوار کے روز لوگر اور قندھار صوبوں میں اتوار کے روز حملے کیے۔ ان میں بارہ افغان پولیس مارے گئے۔

لوگر کے صوبائی گورنر کے ترجمان دیدار لوانگ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ سات پولیس اہلکار ہلاک اور تین دیگر اس وقت زخمی ہو گئے جب طالبان نے لوگر صوبے کے محمد آغا ضلع میں ان کی گاڑیوں پر حملہ کر دیا۔

یہ پولیس اہلکار دارالحکومت کابل کے جنوب میں واقع لوگر میں تانبے کی کانوں کی حفاظت پر مامور تھے۔ لوگر کی ریاستی پولیس نے بھی اس حملے کی تصدیق کی ہے۔

افغانستان میں تانبے، لوہے، کوبالٹ اور لیتھیئم کے ذخائر پائے جاتے ہیں تاہم خانہ جنگی اور بدعنوانیوں کی وجہ سے ملک کی اقتصادی حالت بہت خراب ہے۔

اتوار کے روز ہی ایک دوسرا دھماکہ طالبان کے گڑھ سمجھے جانے والے قندھار میں ہوا جب کہ ایک خود کش بمبار نے دھماکہ خیز مادوں سے لدی ہوئی اپنی کار پولیس کی گاڑی سے ٹکرادی۔ یہ حملہ قندھار کے مائی وند ضلع میں پیش آیا۔ اس میں چار پولیس والے زخمی بھی ہو گئے۔

ملک کے مختلف حصوں میں حکومتی سکیورٹی فورسز اورطالبان میں جنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

افغان وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس دنوں کے دوران طالبان نے چھ خود کش حملے اور 62 بم حملے کیے۔ ان میں 60 سے زائد شہری ہلاک اور 180 دیگر زخمی ہوئے ہیں۔

افغانستان میں امریکا اور بیرونی افواج کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر نے اتوار کے روز بتایا کہ غیرملکی فوجیوں کی روانگی شروع ہو گئی ہے اور فوجی اڈے اور سازو سامان افغان فوج کے حوالے کرنے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جنرل اسکاٹ ملر نے اتوار کے روز کہا”وہ صدر جو بائیڈن کے امریکا کی سب سے طویل جنگ کے خاتمے کے فیصلے کے تحت احکام پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔”انھوں نے کہا ”غیرملکی افواج کے انخلا کے عمل کے دوران میں ایسے فوجی وسائل اپنے پاس رکھیں گی، جن سے وہ اپنا دفاع کرسکیں اور ساتھ ہی وہ افغان سکیورٹی فورسز کی بھی معاونت جاری رکھیں گے۔”

افغانستان میں امریکی فورسز اورنیٹو کی مشن کی 2018ء سے کمان کرنے والے جنرل اسکاٹ ملر کا کہنا تھا”مجھے طالبان کے سیاسی کمیشن کے ارکان سے بات چیت کا موقع ملا ہے اور میں نے انھیں باور کرایا ہے کہ اگر تشدد کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے اور کسی فوجی فیصلے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ افغانستان اور افغان عوام کے لیے ایک المیہ ہوگا۔”

جنرل اسکاٹ ملر نے کہا کہ غیرملکی فورسز اس دوران فوج اور دیگر مشینری کا تحفظ کیا جائے گا اور افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون جاری رہے گا۔

خیال رہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون حملوں کے بیس برس کے موقع پر11 ستمبر سے قبل افغانستان میں موجود تمام فوجیوں کو واپس بلایا لیاجائے گا۔افغان طالبان اورسابق ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان فروری 2020 میں طے شدہ معاہدے کے مطابق رواں سال یکم مئی تک جنگ زدہ ملک سے امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہونا تھا۔

جنرل اسکاٹ ملر کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ہماری فورسز یہاں سے مکمل طور پر چلی جائیں گی تو ہم فوجی اڈے ابتدائی طور پر افغان وزارت دفاع اور دیگر افغان فورسز کے حوالے کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ القاعدہ سے تعلق ختم کردیں گے۔ لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق انہوں نے امریکی قیادت والے غیر ملکی فورسز پر تو حملے کم کر دیے ہیں لیکن افغان سکیورٹی فورسز پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ نے جنوری میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے قریباً 500 جنگجو موجود ہیں۔ طالبان نے ان کے ساتھ قریبی روابط استوار کر رکھے ہیں جبکہ طالبان افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی سے انکار اور ایسی اطلاعات کی تردید کرتے ہیں۔