امیدِ صبح جمال / افضال احمد گوندل

Afzal And Qamar

افضال احمد گوندل
(قمر عباس بوسال ایڈووکیٹ)
میں تو اس کربِ نظارہ سے تڑپ اٹھتا ہوں
کتنے ایسے ہیں جنہیں حسرتِ بینائی ہے
گفتگو میں کمال کا ٹھہراؤ ٬الفاظ نپے تلے ٬ باوزن جملے اور جامع انداز بیاں ٬ ہر کسی کا خاصہ نہیں ہوتا٬
پی ٹی آئی کے اکثر رہنماؤں کی شخصیت پُرتاثر لیکن جہاں بات کرنے کا مؤقف دینے کا وقت آتا ہے تو کہیں قدرے دوسری سیاسی جماعتوں سے کمزور دکھائی دیتے ہیں٬
منطق کے ساتھ دلائل کو آسانی سے گفتگو کا حصّہ بنا کر بڑی بات کو بآسانی نرم حروف میں بیان کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں٬
میڈیا پے ان جیسے لوگوں کو پی ٹی آئی کا مؤقف پیش کرنا چاہیے٬ تا کہ سننے والے پر بھرپور اثر ہو٬
قمر عباس بوسال
میرے علاقے سے تعلق رکھنے والے اچھی شہرت کے حامل انسان ہیں ٬
منڈی بہاؤالدین “”چوٹ دہیران”” کے گاؤں سے آپکا تعلق ہے٬
بچپن میں والد فرانس آگئے ٬ لیکن یہ محسوس کرتے تھے کہ انہیں یہاں نہیں رہنا ان کی پاکستان کو بہت ضرورت ہے ٬ ہر انسان کو اللہ پاک نے کوئی نہ کوئی خاص خوبی سے نوازا ہوتا ہے ٬ ان کا خیال تھا کہ سیاست ان کو پکار پکار کر اپنی جانب کھینچ رہی ہے٬ تا کہ یہ وہاں جا کر پاکستان کیلیۓ قابل ذکر کام کر سکیں ٬
فرانس کی خوشحالی ہمیشہ انہیں سوچنے پر مجبور کرتی تھی کہ پاکستان کو بھی ایسا بنانا ہے ٬ لیکن اس کیلیۓ
انہیں پاکستان جا کر وہاں جدوجہد کرنی ہوگی٬ کنارے پے کھڑے ہو کر آپ منزل حاصل نہیں کر سکتے٬
بہت سوچ و بچار کے بعد آخر کار پاکستان واپسی کا فیصلہ ہوا اور آج انہیں فخر ہے کہ کہ یہ فیصلہ انہیں “” پی ٹی آئی کے ساتھ نئے پاکستان کی جدو جہد میں شامل کرنے کا باعث بنا٬
1990 میں دل دماغ کی شدید کشمکش سے چھٹکارہ پانے کیلئے پاکستان واپس چلے گئے ٬
فیصل آباد کے “” ڈی پی ایس سکول سے میٹرک کیا “”
گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف اے اور پھر بی اے کیا٬
ایل ایل بی پھر ماسٹرز ڈپلومیسی اینڈ سٹریٹجک اسٹڈیز
پی ایم ایل این میں شمولیت اختار کی
پھر اپنا سیاسی سفر شروع کیا٬
ماس کمیونکیشن کے سٹوڈنٹ رہے
ایڈیٹر برائے گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین “” پطرس ٬”” نام سے ٬
پریکٹس ہائیکورٹ لایہور سے شروع کی پھر سیاست شروع کی
پھر پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا
2004 سے لے کر اب تک فل ٹائم پالیٹکس کر رہے ہیں٬ علاقے کے مکینوں کو ان کی سیاست پر گہرا یقین ہے٬ یہی وجہ ہے کہ ہردلعزیز رہنما ہیں ٬ سیاسی آغاز سے این اے 109 منڈی بہاؤالدین تک کا وقت کیسے گزرا کچھ پتہ نہیں لگا٬
ان کے سسر فیصل آباد این اے 76 ملک نواب شیر وہاں ایم این اے ہیں٬
فرانس سے واپس ہی اس لٔئے گئےکہ ان کا خیال تھا کہ مجھے اپنے ملک کے لوگوں کیلیۓ کچھ نہ کچھ کام کرنا ہے ٬ آج یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جو سوچا تھا وہ کرلیا ٬
اب ان کا مقصد اور سوچ یہ ہے
کہ
مجھے اپنے بے بس لاچار مفلس لاغر لوگوں کا حق ادا کرنا ہے
پچھلے دس سال انہوں نے نون لیگ میں بہت کام کیا ٬ عہدہ اور اس کے لوازمات کے ساتھ کامیاب زندگی بسر کی٬ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ کوئی حسرت نہیں ہےانہیں اب نام اور نمائش کی ٬
لیکن
ایک کمی تھی وہ تھی
کہ پاکستان کے لئے حقیقی معنوں میں کچھ نہیں کیا ٬
یہ ان کی اندرونی سوچ ہے کہ انہیں ابھی حققیت میں کچھ کرنا ہے
کیونکہ
ان جیسے لوگوں کیلیۓ سیاست دکھاوا نہیں بلکہ ایک فکر انگیز درد بھری تحریک ہے٬ جو اپنے نیم مردہ لوگوں کیلیۓ ہے ٬
مسلم لیگ نون میں کئی مدوجزر کئی اتار چڑہاؤ دیکھے٬ وہاں سوائے اقتدار میں مستقل براجمانی کے علاوہ عوام کیلیۓ کوئی منصوبہ کوئی سوچ نہیں٬ مشینی لوگ جزبات سے عاری رہنما اپنی ذات میں گُم ٬
جستجو کے سفر میں ان کی کھوج کچھ اور تھی ٬ شش و پنج میں تھے ٬ جہاں تھے وہاں سے دل بیزار سا ہونے لگا٬
دل
کچھ الگ کچھ سچا کچھ کھرا کام چاہتا تھا٬جو تاریخ بنے ٬ امر ہو جائے٬
سوچ کی تبدیلی کا سفر شروع ہو چکا تھا
زہن کی سکرین پر بار بار صرف ایک نام جھلمل کرتا ہوا ڈوبتا ابھرتا تھا
پی ٹی آئی
کا نام انہیں بہت پرکشش لگ رہا تھا
٬ عمران خان کا نام اور پہچان معلومات حاصل کرنے پر وہی کردار لگا جو ان کےضمیر کا سکون بن سکتا تھا٬
عمران خان کے ساتھ کام کرنا عوام کے درد کا درماں بن سکتا تھا٬
بہت سوچ وبچار کے بعد دل اور دماغ کا فیصلہ آیا کہ عرصہ دراز سے جاری سیاسی خشک صحرا میں اب سیاسی جل تھل کا وقت آگیا ٬
ابر رحمت
پی ٹی آئی
کی صورت پاکستان کے خشک بنجر زمین پر برس کر مدتوں کی تشنگی کو ختم کرنے کیلیۓ چھا چکا ہے٬
لہٰذا
فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں ہوگیا ٬
2013 کے بعد عمران خان کے ساتھ نئے پاکستان کا سفر شروع ہوا٬ اس سفر کے آغاز سے پہلے وہی روایتی مخصوص سیاست تھی وہی نظام تھا٬ وہی انداز چودھراہٹ تھا
میں ہرگز نہیں جھجھکتا کہنے سے
کہ
اُس عالیشان سیاسی محل کے دربارکا ایک وزیر میں بھی تھا ٬ جو اپنا اصل سیاسی مقصد (عوام ) بھول چکا تھا ٬ اور مجھے بھی اچھا لگتا تھا طمطراق سے رہنا ٬ لوگوں پر اپنا رعب رکھنا ٬ ان کو عاجزی سے گھگیاتے ہویے دیکھنا٬ اور پھر کسی مطلق العنان حکمران کی طرح ان کے ضرورت کے کشکول میں بھیک کے کچھ سکے ازراہ ہمدردی پھینک دینا٬ حالانکہ ہم ان کیلیۓ ان سے بہت زیادہ کر سکتے ہیں٬ مگر ایسا کرنا نہیں سیکھا قائدین سے ٬
یہ سب لکھنا ضروری ہے تا کہ بزرگوں کی عام مثال
“” خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے”” کا اصل مفہوم آپ سب سمجھ سکیں٬
کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اگر رہنما عاجز ہو ٬ ہمدرد ہو فراخدل ہو مخلص ہو ٬ تو اس کے ساتھ چلنے والے بھی وہی انداز فکر اختیار کریں گے٬
لیکن
اگر
رہنما خود لُٹیرا ہو ٬ ذاتی حسب نسب کے غرور سے تنی گردن کو عاجزی سے عام بندے کے سامنے جھکانے سے قاصر ہو٬
اسلامی تعلیمات سے نابلد ہو ٬ اور یہ نہ جانتا ہو کہ اس کو اللہ نے ایک بھاری بھرکم ڈیوٹی دی ہے جس کا مقصد غریب رعایا کی بہتری کرنا ہے٬ نا کہ ذاتی جاگیروں کی تعداد میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ٬
تو پھر اس کے ساتھ چلنے والے بھی ویسا ہی طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں٬ جیسا کہ اپنی سوچ کے برعکس میں ہو چکا تھا٬
حاکم کیسا ہونا چاہیے؟
یہ اب پتہ چلا عمران خان کو قریب سے دیکھ کر کہ ایک اسلامی سوچ کے مطابق رہنما کیسا شاندار ہوتا ہے٬
اختیارات کا ناجائز استعمال ہمیشہ دیکھا جب سے سیاست میں آیا ٬ لیکن ایک رہنما اپنے جیسے لوگوں کو اکٹھا کر کے کیسے دن رات اس ملک کے لوگوں کی تقدیر بدلنا چاہتا ہے ٬ یہ متاثر کُن مشکل عمل اب دیکھنے کو مل رہا تھا٬ میرا نظریہ مزید مضبوط ہو کر حقیقی سکون اور خوشی محسوس کرنے لگا تحریک انصاف میں آکر٬
اسلام بہت پڑھا لیکن زندگی پر اس کا اثر کہیں نہیں تھا٬ کیونکہ اس کو پڑھ کر عمل نہیں کیا٬ مگر اب پی ٹی آئی میں شامل ہو کر سنجیدہ مزاج لوگوں کی ہمراہی ملی ٬ ان کا عمل دیکھا٬ ان کو دیکھ کراسلام کی روح نے قلب ونظر نرم کئےاور سیاست میں سوچ کے فرق کو جس شخصیت نے واضح کیا وہ نام تھا٬
عمران خان
ایسا سیاسی کردار ہے٬ جسے بیان کریں تو شائد بین القوامی مبصرین سر پکڑ کے رہ جائیں
کہ یہ انسان اتنی خوبیاں رکھنے والا کوئی پاکستانی نہیں ہو سکتا اورخاص طور پر سیاستدان٬
مگر
یہ سچ ہے اور مجسم سچ
پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے ہمارے سیاسی اکابرین کی بیان بازیوں سے ٬ نسل در نسل سیاسی خاندانوں
نے اپنے جانشین سیاست میں صرف اس لئے اعلیٰ ڈگریوں کے ساتھ داخل کئے کہ وہ ان سے بہتر انداز میں اعلیٰ ڈگریوں کے ساتھ اعلیٰ طرز کی بے ایمانی کے نئے باب رقم کرتے ہوئے ان کی سابقہ سیاسی زندگی کو دوام بخشیں٬
مگر
پی ٹی آئی نے آکر ان کا طویل عرصہ سے بچھی سیاسی بساط کو تہس نہس کر دیا٬
اس ملک کے روز مرتے ہوئے لوگوں کی بیچارگی نے اب عرشِ معلیٰ کو ہلا کر رکھ دیا ٬ ظلم کی انتہاء جب انسانوں کا زمین پے سانس لینا دوبھر کر دیتا ہے تو بے انصافی کی کھاد سے مُردہ ہوتی زمین میں انصاف کی کونپل پھوٹتی ہے٬
پی ٹی آئی
وہی کونپل تھی جو اب سایہ دار شجر کی صورت تپتی دھوپ میں آبلہ پا لوگوں کو سایہ فراہم کر رہی ہے٬
یہاں انہیں ہر روز نیا سیاسی سبق ملنے لگا٬ یہ بذاتِ خود سیاسی شطرنج کے ماہر کھلاڑی ہیں سیاسی نشیب و فراز کو جانچنا پرکھنا اور پھر اپنے لئے بہترین راستہ بغیر کسی ٹکراؤ کے نکالنا بخوبی جانتۓ ہیں٬
کیونکہ
اللہ کا حکم ہے کہ جیسی نیت ویسی مراد
ان کی نیت میں ہمیشہ سے ایک سچی سوچ پِنہاں تھی ٬
خدمت خلق ٬
اور
یہی سوچ انہیں دشت وبیابیاں کی سیاحی کرتے ہوئےآخر کار پی ٹی آئی تک لے آئی ٬
عمران خان کی نظریاتی سوچ اور اس کا دشوار گزار یہ سفر ایسے پُرخطر سیاسی متلاطم سمندر میں ہے جہاں خطرناک سیاسی مگرمچھ اپنے قوی الحبثہ وجود کے ساتھ اس 1996 میں بنی ننھی منی جماعت کو بڑے بڑے منہ کھولے ہڑپ کرنے کو بیتاب تھے٬
مگر
اب تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے٬
اس نئی کمزور جماعت نے 2011 کے بعد جیسے تند وتیز سونامی کی صورت اختیار کر کے پہلی بار قیام پاکستان کا وقت دہرا دیا ٬ مرد عور بوڑھا بچہ جوان ٬ ہر وجود صرف پاکستان بن کر باہر نکلا ٬ اور سیاسی شہتیروں کو جڑ سے اکھاڑ کر بارآور کر دیا کہ
وہ اب اس سیاسی طلسم کو توڑ کر شفاف نظام حاصل کئے بغیر دم نہی لیں گے٬
نیا پاکستان
اس نعرے نے پاکستان کے طول وارض کو ایک سوچ سے باہم جوڑ دیا ہے
صرف یہ نہیں ہر سیاسی کارکن اس اجڑتے بکھرتے پاکستان سے اپنے اپنے حصے کی خوشیاں کشید کر چکا ہے٬
مگر
اب کچھ لوگوں کا ضمیر احساس دلاتا ہے کہ خوشیوں پر حق صرف
ان کا نہیں ہے٬
وہ جو ایک بڑی کثیر تعداد میں ان پر انحصار کئے بیٹھے تھے ان کی ڈوبتی نبضوں کو کون زندگی کی رمق دے گا٬
نیم مُردہ تنِ سوختہ کو”” نیا پاکستان “” پھر سے حرارت پی ٹی آئی کی فراہم کر رہی ہے٬
تحریک انصاف مرکز ہو یا ذیلی شاخیں ٬ اسکے ہر کارکن کیلئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ
ہر فرد صرف اور صرف پاکستان کی خوشحالی کامیابی اور عام آدمی کی کامیاب زندگی کا خواہاں ہے٬
آج ان کو اپنے فیصلے پر فخر ہے کہ انہوں نے بلآخر وہ راستہ چنا جس کا رخ منزل مقصود یعنی”” نئے پاکستان “” کی طرف جاتا ہے٬
آپ سب کو بھی دعوت فکر و عمل دینا چاہتے ہیں٬
اپنی زندگی سے ذرا ایک نظر پرے دور حسرت و یاس بھری نگاہوں کو دیکھیں جو ہم سے مایوس ہو کر آسمان کو تک رہے ہیں ٬ ان کی خاموش دعائیں اب رنگ لائیں گی ٬
آئیے
ایک ساتھ مل کر ایک سوچ ایک رہنما کے ساتھ آگے بڑہیں
اور
بنا لیں
نیا پاکستان
ہاتھوں میں ہاتھ دیں
تحریک انصاف کا ساتھ دیں
قمر بوسال جیسے لوگ ہی پاکستان کے لوگوں کیلیۓ
امیدِ صبح جمال ہیں ٬
آئیے ان کا ساتھ دیں
اب اگر زلزلے بھی آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر میرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کیلئے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو