القاعدہ کے رکن ابوزبیدہ پر تشدد سے متعلق امریکی سپریم کورٹ میں سماعت

Guantanamo

Guantanamo

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی سپریم کورٹ گوانتانامو بے کے حراستی مرکز میں رکھے گئے ایک قیدی پر سی آئی اے کے تشدد سے متعلق کیس کی سماعت کر رہی ہے۔ اس میں قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کو خفیہ رکھنے کی حکومت کی خواہش کو چیلنج کیا گیا ہے۔

القاعدہ سے تعلق رکھنے کے شبے میں گرفتاری کے بعد پولینڈ کی جیل میں سی آئی اے کے تشدد کا نشانہ بننے والے ابو زبیدہ چاہتے ہیں کہ امریکی عدالت11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد حراست میں لیے گئے مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کے لیے سی آئی اے کی وحشیانہ”دہشت گردی کے خلاف جنگ” میں شامل ایجنسی کے دو ماہرین نفسیات کو ان کے مقدمے میں گواہی دینے کے لیے مجبور کرے۔ ابوزبیدہ کے مطابق ان دونوں افسران نے پولینڈ کے ایک خفیہ مقام پر سن 2002 سے 2003 کے دوران انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

سی آئی اے اور امریکی محکمہ انصاف تاہم اسے روکنے کے لیے قومی سلامتی کا حوالہ دے رہے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ ‘ریاستی رازوں کے استحقاق‘ کی بنیاد پر ایسی معلومات کو افشا کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔

اب تک فرد جرم عائد نہیں
سعودی نژاد فلسطینی شہری 50 سالہ زین العابدین محمد حسین جو ابوزبیدہ کے نام سے معروف ہیں پر سن 2002 میں پاکستان میں پہلی مرتبہ گرفتار کیے جانے کے بعد سے آج تک کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے۔ حالانکہ سن 2006 میں کیوبا کی فوجی گوانتانامو جیل میں ڈالنے سے پہلے پوچھ گچھ کے لیے سی آئی اے کی کئی خفیہ جیلوں میں انہیں رکھا گیا تھا۔

ابوزبیدہ پہلے امریکی قیدی تھی جنہیں نائن الیون حملوں کے کا سب سے بڑا منصوبہ ساز قرار دیا گیا تھا اور انہیں وارٹر بورڈنگ، جسم پر گولی مارنے اور دیگر سخت تکنیکوں کے ذریعہ اذیت ناک تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ ابوزبیدہ کو تھائی لینڈ، پولینڈ اور دیگر مقامات پر سی آئی اے کے بدنام زمانہ خفیہ ٹھکانوں پر مبینہ طور پر اذیتیں دی گئیں۔

قیدیوں سے پوچھ گچھ کے حوالے سے امریکی سینیٹ کی سن 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق گوانتانامو بھیجنے کے بعد سے اب تک سی آئی نے تسلیم کیا ہے کہ وہ کبھی بھی القاعدہ کے رکن نہیں رہے اور نائن الیون حملوں کی منصوبہ بندی سے ان کا کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا۔ تاہم اس کے باوجود ابوزبیدہ کو گوانتا نامو بے میں بغیر کسی الزام کے قید میں رکھا گیا۔ ان کی رہائی کو بار بار صرف اس لیے روکا گیا کیونکہ حکومت نے دعوی کیا تھا کہ وہ القاعدہ کے حامی ہیں اور انہیں اپنے کیے پر کوئی ندامت نہیں ہے۔

ابوزبیدہ نے سن 2010 میں پولینڈ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا تھا جس میں انہوں نے وہاں کی حکومت کو اپنے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کی درخواست کی تھی۔

اس کیس میں انہیں یورپیئن کورٹ آف ہیومن رائٹس کی حمایت حاصل ہے، جس کے لیے انہیں پولینڈ میں سی آئی کے خفیہ قید خانے میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے اپنے دعوے کی تائید کے لیے دو ماہرین نفسیات جیمز میشیل اور بروس جیسین کو بطور گواہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن پولینڈ کے حکام کی جانب سے ملک میں سی آئی اے کے خفیہ قید خانے کے وجود کو تسلیم کیے جانے اور امریکی سینیٹ میں ابوزبیدہ کے خلاف تشدد کے دستاویزی شواہد پیش کیے جانے کے باوجود امریکی حکومت اور سی آئی اے ان ماہرین نفسیات کو گواہی دینے سے روکنا چاہتی ہے۔

سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرح کی بائیڈن انتظامیہ کا بھی کہنا ہے کہ اگر ان ماہرین نفسیات کو گواہی دینے کی اجازت دے دی گئی تو اس سے واشنگٹن کے غیر ملکی انٹلیجنس شراکت داروں کی شناخت اور کئی ملکوں میں سی آئی اے کے سابق حراستی مراکز کی نشاندہی ہوجائے گی اور کئی اہم ریاستی معلومات اور راز افشا ہوسکتے ہیں جن سے امریکی قومی سلامتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

امریکی عدالتیں عام طور پر حکومت کے، ریاستی رازداری کے، دعوؤں کو تسلیم کرتی ہیں، لیکن ابو زبیدہ کے کیس کی حمایت کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ تقریباً 20 سال بعد بہت سے راز اب راز نہیں رہے۔

امریکن سول لبرٹیز یونین سے وابستہ ڈیوڈ کول کا کہنا تھا،”یہ بنیادی طور پر معلومات کو خفیہ رکھنے کی کوشش ہے، لیکن اب یہ بات اس لیے عجیب ہے کیوں کہ ہر کوئی اس راز سے واقف ہے۔”