’امریکا واپس آ گیا ہے‘: بائیڈن کا پیغام لے کر بلنکن برلن میں

Anthony Blinken

Anthony Blinken

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن جرمنی کے دورے پر ہیں۔ ان کا یہ دورہ بالخصوص جرمنی اور بالعموم مغربی اتحادیوں کے ساتھ امریکا کے سفارتی اور سیاسی تعلقات کی تجدید کی ایک اہم کوشش ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ پُرکشش طریقے سے بھرپور سفارت کاری کے ساتھ مغربی یورپی اتحادیوں سے امریکا کی دیرینہ دوستی اور قریبی لگاؤ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ واشنگٹن کے لیے یہ کوششیں اس وقت کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ بائیڈن سے پہلے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی چار سالہ صدارتی مدت امریکا اور یورپ کے مابین تعلقات کو کافی نقصان پہنچا چکی تھی اور کافی ہنگامہ خیز رہی تھی۔ واشنگٹن کے کلیدی مغربی اتحادیوں کے درمیان توانائی اور دفاعی امور سے متعلق ترجیحات جیسے موضوعات میں واضح اختلافات کی موجودگی کے باوجود بائیڈن انتظامیہ اپنی تمام تر کوشش کر رہی ہے کہ مغربی یورپی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات انہی خطوط پر دوبارہ مضبوط ہوں، جن پر وہ ماضی میں تھے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن آج بدھ کو برلن پہنچے، جہاں سے وہ اپنا سات روز کے اندر اندر دوسرا دورہ یورپ شروع کر رہے ہیں۔ پہلے دورے کے دوران وہ صدر بائیڈن کے ساتھ برطانیہ اور بیلجیم کے حکومتی سربراہان اور سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔

اپنے اس دوسرے دورے کے دوران وہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس سے دوستانہ ماحول میں بات چیت میں اس امر کا یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ ‘امریکا اب واپس آ گیا ہے‘۔ یہی پیغام گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن ذاتی طور پر بھی یورپ کو دے چکے ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ یورپ کو ہر ممکن طریقے سے اس امر کی یقین دہانی کرانے کا عزم رکھتی ہے کہ نیٹو کے بنیادی اتحادی ممالک کے ساتھ چند اختلافات کے باوجود ‘ڈونلڈ ٹرمپ کا بحر اوقیانوس کے آر پار کے معاملات سے متعلق طریقہ کار‘ اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔

یورپ کی اقتصادی شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے ملک جرمنی کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں جو دو اہم ترین امور آڑے آ رہے ہیں، ان میں سے ایک روسی گیس پائپ لائن اور دوسرا دفاعی اخراجات کا معاملہ ہے۔ یہ دونوں تنازعات ڈونلڈ ٹرمپ کے وقت سے چلے آ رہے ہیں۔

یورپی امور کے ایک چوٹی کے امریکی سفارت کار فلپ ریکر کے مطابق، ”بلنکن کا یہ دورہ جو بائیڈن کی ترجیحات کا تسلسل ہے، جس کا مقصد اتحادیوں کے ساتھ بشمول جرمنی تعلقات کو دوبارہ مضبوط بنانا ہے، جو خارجہ پالیسی کی ترجیحات کی بنیاد بھی ثابت ہوگا۔‘‘

بہت سے حلقوں کا ماننا ہے کہ نارتھ اسٹریم ٹو گیس پائپ لائن منصوبے سے یورپ کی انرجی سکیورٹی پر سمجھوتا کرنا پڑے گا اور اس سے مشرقی اور وسطی یورپی ممالک منفی طور پر متاثرہوں گے کیونکہ یہ پائپ لائن یوکرائن اور پولینڈ کو نظر انداز کرتے ہوئے مکمل کی جائے گی۔ امریکی تحفظات سے قطع نظر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نارتھ اسٹریم ٹو پروجیکٹ کی بھرپور حمایت کرتی ہیں۔ یہ منصوبہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے روس کو توانائی کی برآمد سے ہونے والی آمدنی میں اضافے کی خاطر کلیدی اہمیت کے حامل اقدامات میں سے ایک ہے۔ اس پروجیکٹ پر پولینڈ اور یوکرائن کے اعتراضات کے علاوہ امریکی کانگریس میں بھی مخالفت پائی جاتی ہے۔ ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی، دونوں جماعتوں کے اراکین نے مئی میں اس پائپ لائن کی تعمیر کا کام کرنے والی جرمن کمپنی اور اس کے جرمن سی ای او سمیت متعدد سرکردہ شخصیات کے خلاف پابندیوں کو ختم کرنے کے فیصلے پر سخت تنقید کی تھی۔ اس پائپ لائن کی تعمیر کا 95 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور ناقدین ان پابندیوں کو اس پروجیکٹ کی تکمیل کو روکنے کی آخری کوشش سمجھ رہے تھے۔یورپی یونین اور ایران میں بات چیت، امریکا کا خیر مقدم

جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے پابندیاں ہٹانے کے فیصلے کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان پابندیوں سے امریکا اور جرمنی کے تعلقات کو بہتر بنانے میں فائدے سے زیادہ نقصان ہوتا۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کا یہ دورہ اس لیے بھی غیر معمولی سمجھا جا رہا ہے کہ اس دورے کے دوران وہ چانسلر انگیلا میرکل سے ایک ایسے وقت پر ملاقات کر رہے ہیں، جب میرکل کی چانسلرشپ کے آخری تین ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ اس مناسبت سے بلنکن آخری موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے اور جرمن چانسلر پر روسی گیس پائپ لائن منصوبے کے سلسلے میں دباؤ ڈالیں گے۔ امریکی سفارت کار فلپ ریکر کہتے ہیں، ”ہمارا ہدف یقینی طور پر یہی رہے گا کہ روس توانائی کو یوکرائن یا خطے کے کسی دوسرے ملک کے خلاف بطور ہتھیار استعمال نہ کر سکے۔ یہی وہ بنیادی موضوعات ہیں، جو مذاکرات کے دوران ہمارے موقف کی بنیاد ہوں گے۔‘‘

بلنکن جرمنی کے بعد فرانس اور اٹلی بھی جائیں گے۔