امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا ایک اور دور مکمل

US and Taliban Negotiations

US and Taliban Negotiations

دوحہ (جیوڈیسک) افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آٹھواں دور ختم ہو گیا ہے۔ اس مذاکراتی دور میں بھی فریقین کوئی حتمی ڈیل طے کرنے سے قاصر رہے ہیں۔

خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور اتوار اور پیر کی نصف شب میں ختم ہو گیا۔ طالبان کے ترجمان کے مطابق اس مذاکراتی دور میں امریکا نے افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا پر اتفاق کیا ہے۔

اگلے مذاکراتی دور کے شروع ہونے کا جلد اعلان کیا جائے گا۔ طالبان کے نمائندے اگلے مرحلے کے لیے اپنے رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کریں گے۔ اسی طرح امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد بھی مزید پیش رفت کے لیے امریکی وزارت خارجہ کے ساتھ بات چیت کریں گے۔

اب تک امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آٹھ راؤنڈ مکمل ہو چکے ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امن بات چیت کے آٹھویں دور کو طویل اور مفید قرار دیا۔

تجزیہ کاروں کا اندازہ تھا کہ مذاکرات کے آٹھویں دور میں حتمی امن معاہدہ طے کر لیا جائے گا، تاہم ایسے اندازے درست ثابت نہیں ہوئے۔ ماہرین کے مطابق بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ابھی بھی بعض امور کو حل کرنے کے لیے فریقین کو پچیدگیوں کا سامنا ہے۔

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ حتمی امن ڈیل میں طالبان کی ضمانتیں بھی شامل ہوں گی کہ وہ افغانستان میں کسی دوسرے انتہا پسند گروپ کے افزائش کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسی معاہدے میں افغانستان میں جنگ بندی اور کابل حکومت کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت بھی شامل کی جا سکتی ہے۔

ابھی تک طالبان افغانستان میں قائم حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور اُن کے خیال میں یہ امریکی کٹھ پتلی حکومت ہے اور ان سے بات چیت فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی۔

دوحہ میں ختم ہونے والے راؤنڈ سے متعلق ابھی تک کوئی امریکی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ امریکا اس کوشش میں ہے کہ طالبان کے ساتھ پہلی ستمبر تک کوئی امن ڈیل طے کر لی جائے۔ اس تناظر میں اگلے مذاکراتی دور کے جلد شروع ہونے کا امکان ہے۔

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ اُن کے ملک کی عوام مستقبل میں اپنے ملک میں کسی بھی قسم کی غیر ملکی مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے اور ایسے اقدامات کو فوری طور پر مسترد بھی کریں گے۔ غنی نے یہ بیان عیدالاضحیٰ کے موقع پر دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگلے مہینے کے صدارتی انتخابات اس لیے اہم ہیں کہ اس ملک کو الیکشن کے بعد ایک طاقتور لیڈر کی رہنمائی حاصل ہو سکے گی۔