عرب دنیا کا پہلا جوہری پلانٹ فعال

Arab Nuclear Plant

Arab Nuclear Plant

ابو ظہبی (اصل میڈیا ڈیسک) توانائی کے حصول کے لیے عرب دنیا کا اولین جوہری پاور پلانٹ متحدہ عرب امارات میں اب فعال ہے۔ سعودی عرب بھی سولہ ری ایکٹرز کی تعمیر کا منصوبہ رکھتا ہے۔ عرب دنیا کا اصرار ہے کہ جوہری پروگرام محض توانائی کے حصول کے لیے ہے۔

متحدہ عرب امارات کے اولین جوہری پاور پلانٹ کے ابتدائی یونٹ نے ہفتہ یکم اگست سے کام شروع کر دیا ہے۔ ایمریٹس نیوکلیئر انرجی کارپوریشن (ENEC) نے اس امر کی تصدیق کی کہ پلانٹ کا پہلا ری ایکٹر ہفتے سے فعال ہے۔
ابو ظہبی میں برکہ پاور پلانٹ کوریا الیکٹرک پاور کاپوریشن کے تعاون سے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس پلانٹ کے ابتدائی یونٹ کو دراصل تین برس قبل ہی فعال ہو جانا چاہیے تھا مگر مختلف وجوہات کی بنا پر اس میں تاخیر ہوتی رہی۔

ای این ای سی کے مطابق نواح انرجی کمپنی نے برکہ پاور پلانٹ کے یونٹ نمبر ایک میں کام شروع کر دیا ہے۔ تقریبا ساڑھے بائیس بلین ڈالر کی لاگت سے بننے والے اس جوہری پاور پلانٹ کی تعمیر جب مکمل ہو جائے گی، تو چار ری ایکٹرز سے پانچ ہزار چھ سو میگا واٹ بجلی حاصل ہو سکے گی۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں متحدہ عرب امارات کے نمائندے حماد الکابی نے جنوری میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ برکہ پاور پلانٹ کی تکمیل سے پائیدار ترقی کا ہدف حاصل ہو سکے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ یہ پوری کی پوری عرب دنیا کا پہلا نیوکلیئر وری ایکٹر ہے، جو توانائی کے حصول کے لیے استعمال میں آئے گا۔

متحدہ عرب امارات کی سات رکن ریاستوں میں تقریبا دس ملین افراد آباد ہیں۔ موسم گرما میں اس ملک میں شدید گرمی ہوتی ہے اور ایئر کنڈیشننگ وغیرہ کے لیے خاصی بجلی درکار ہوتی ہے۔ متحدہ عرب امارات خام تیل پراسیس کرنے والا اوپیک کا چوتھا سب سے بڑا رکن ملک ہے۔

یہ ملک قدرتی گیس کے ذخائر سے بھی مالا مال ہے لیکن اس کے باوجود توانائی کے حصول کے لیے ماحول دوست طریقہ کار پر کام جاری ہے۔ حکام کی کوشش ہے کہ سن 2050 تک متحدہ عرب امارات کی بجلی کی ضروریات کا نصف حصہ ماحول دوست ذرائع سے حاصل ہو سکے۔ اس ضمن میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری جاری ہے۔

پڑوسی ملک سعودی عرب بھی سولہ جوہری ری ایکٹرز فعال کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے مگر فی الحال ان پر کام شروع نہیں ہوا۔

متحدہ عرب امارات کی اعلی قیادت بین الاقوامی تنظیموں کو اس بات کی یقین دہانی کراتی آئی ہے کہ ان کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔ سن 2010 سے لے کر اب تک چالیس مختلف جائزے اسی بات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ حکام نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ یورینیئم کی افزودگی کا عمل شروع نہیں کیا جائے گا۔

ابو ظہبی میں برکہ پاور پلانٹ سعودی عرب سرحد کے پاس اماراتی ساحلی پٹی پر خلیج فارس کے کنارے واقع ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ خطے میں خلیج فارس کے ہی کنارے مگر دوسری طرف ایران کا بھی ایک جوہری پاور پلانٹ قائم ہے۔ متحدہ عرب امارات امریکا کا اتحادی ملک ہے جبکہ ایران امریکا کا سخت مخالف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور ایران کے تعلقات بھی زیادہ گرمجوش نہیں ہیں۔