آسام میں کشیدگی کے مدنظر سکیورٹی سخت

Security

Security

آسام (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی ریاست آسام میں شہریوں کی متنازعیہ فہرست کے اجراء سے پہلے سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔ خدشات ہیں کہ اس لسٹ میں حکام نے وہاں نسلوں سے آباد لاکھوں لوگوں کو نظرانداز کردیا ہے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

کسی ممکنہ گڑبڑ کے پیش نظر حکام نے سترہ ہزار اضافی اہلکاروں کو مختلف مقامات پر تعینات کر دیا ہے۔ حکام نے سوشل میڈیا پر ’سائبر کرائمز‘ کے ارتکاب کے تناظر میں انٹرنیٹ کی نگرانی بھی سخت کر دی ہے۔

ریاست آسام کے شہریوں کے اندراج کے قومی دفتر این آر سی نے ریاستی شہریوں کی سن 1951 میں مرتب کی گئی فہرست کو اپ ڈیٹ کرنے کا سلسلہ سن 2014 میں شروع کیا تھا۔ مبصرین کے مطابق نئی لسٹ میں بیس سے چھبیس لاکھ لوگوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

بھارت میں ہندو قوم پرست نظریے کی حامل مودی حکومت کے نزدیک یہ لوگ بنگلادیش اور دیگر ملکوں سےغیرقابونی طور پر آ کر بھارت میں آباد ہیں۔

گزشتہ برس جولائی میں جاری کیے گئے رجسٹر میں چالیس لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے۔ مزید افراد کے دعووں کی تصدیق کی تکمیل کے بعد لاکھوں افراد ابھی تک بھارتی شہریت سے محروم رکھے گئے ہیں۔ سماجی ماہرین کے مطابق یہ صورت حال آسام میں افراتفری اور خون خرابے یا معاشرتی عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔ مزید یہ کہ بھارتی شہریت سے محروم رہ جانے والے ان لاکھوں افراد کے مستقبل کے بارے میں کچھ بھی کہنا فی الحال بہت مشکل ہے۔

قومی رجسٹر کو مکمل کرنے میں پانچ برس کا عرصہ لگا اور پہلے سے پائی جانے والی تذبذب کی صورت حال اب بھی قائم ہے۔ مجاز ریاستی ادارے انتشار کی اس کیفیت کا تدارک نہیں کر سکے۔ پانچ سالہ عمل کے بعد بھی برسوں سے اس شمال مشرقی بھارتی ریاست میں زندگی بسر کرنے والے لاکھوں غیرقانونی تارکین وطن کا مستقبل بدستور تاریک ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کے سن 2014 میں سنائے گئے ایک فیصلے کی روشنی میں ریاست آسام کے سن 1951 میں مرتب کیے گئے شہریوں کے رجسٹر کو اپ ڈیٹ کیا گیا۔ ریاست کے حکام نے رواں برس یکم اگست کو تمام اضلاع میں نئے شہریوں اور غیر قانونی افراد کے اخراج کا ڈیٹا عام کر دیا تھا۔

قومی رجسٹر کو مکمل کرنے میں پانچ برس کا عرصہ لگا اور پہلے سے پائی جانے والی تذبذب کی صورت حال اب بھی قائم ہے۔

نئے ڈیٹا کے مطابق سب سے زیادہ افراد کے ناموں کا اندراج ہندو اکثریتی ضلع ہوجائی میں کیا گیا اور اضافے کی یہ شرح تینتیس فیصد کے لگ بھگ تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ مسلم اکثریتی آبادی والے کئی اضلاع میں نئے شہریوں کے اندراج کی شرح انتہائی کم ہے۔

حتمی فہرست کے اعلان کے بعد این آر سی میں اندراج سے محروم رہ جانے والے تمام افراد کو خارج کیے جانے کا پروانہ دینے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ناموں کے اندراج سے محروم افراد کو چار ماہ کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ مجاز ادارے (فارنرز ٹریبیونل) میں پہنچ کر اور ذاتی حیثیت میں نام کے اندراج کی اپیل کر سکتے ہیں۔ اپیل کامیاب ہونے کی صورت میں اس فرد کا نام ریاست کے شہریوں کی حتمی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا۔