سلیمانی کے قتل کے انتقام میں یورپ میں ایران کے ممکنہ اہداف کیا ہو سکتے ہیں؟

Iranian Force

Iranian Force

بغداد (اصل میڈیا ڈیسک) ایران نے عراق کے دارالحکومت بغداد بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب امریکی ڈرون حملے میں سپاہِ پاسدارانِ انقلاب کی سمندر پار کارروائیوں کی ذمہ دار تنظیم’قدس فورس’ کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ایران کی طرف سے ممکنہ جوابی کارروائی کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے اور کئی ممالک تک پھیل سکتا ہے۔

ایرانی پاسداران انقلاب کے سیاسی معاون یداللہ جوانی نے دھمکی دی ہے کہ ایران کے امریکا کے خلاف اقدامات مخصوص اہداف تک محدود نہیں۔ ہم امریکا کو یورپی ممالک میں موجود اس کے اہداف کو بھی گذند پہنچا کرامریکا سے انتقام لے سکتے ہیں۔

جوانی نے ایرانی چینل ‘العالم’ کو دیے گئے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا امریکیوں کو خطے کے عوام اور پوری مزاحمت کے محور کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ صرف ایران کا نہیں۔

جوانی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکا کو یورپی ممالک کے اندر سے بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ مزاحمتی قوتیں اپنے میکانزم ، ترجیحات اور اس کی ضرورت کے مطابق اپنا کام کررہی ہیں۔۔

ماضی میں ایران نے یورپی سرزمین پر متعدد کاروائیاں انجام دی ہیں۔ ان کارروائیوں میں ناپسندیدہ افراد کے قتل کی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔ پیرس میں حزب اختلاف کی ایک بڑی کانفرنس پر بم دھماکے کی کوشش کی گئی۔ اس سازش میں ایران کے ایک سفارت کار اور اس میں ملوث عناصر کو گرفتار کیا گیا اور متعدد ایرانی سفارت کاروں کو ملک بدر کردیا گیا۔

یورپی یونین نے ہالینڈ میں ایرانی مخالفین کی ہلاکتوں اور فرانس اور ڈنمارک میں حزب اختلاف کے گروپوں کے خلاف بم دھماکوں اور قتل کی دیگر کوششوں میں ملوث ہونے پر ایرانی وزارت انٹلیجنس کے داخلی امورپر پابندیاں عائد کیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ سلیمانی کی موت کے انتقام میں ایران سفارت خانوں ، اغوا کا کی کارروائیوں، لوگوں کو یرغمال بنانے یا امریکی اور دوسرے اہداف کو بم دھماکوں سے نشانہ بنا سکتا ہے۔

گذشتہ سال ایران کے صدر حسن روحانی نے جوہری معاہدے کے خاتمے پر یورپی ممالک کو منشیات ، مہاجرین ، دہشت گردی اور عدم تحفظ کی دھمکی دی تھی۔

جرمنی میں سرگرمیاں
جرمنی میں ‘قدس فورس’ کی سرگرمیوں اور ان کے جاسوسوں کی موجودگی کی اطلاعات آتی رہی ہیں۔ فیڈرل انٹرنل انٹلیجنس سروس کا کہنا ہے کہ یہ جاسوس بنیادی طور پر یہودی اور اسرائیلی اہداف اور ان سے وابستہ اداروں کی نگرانی کر رہے ہیں۔

جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس نے اخبار “بلڈ ایم زونٹگ” کو دیئے گئےانٹرویو میں کہا کہ ایران۔ امریکا کشیدگی کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ یورپ تک پھیلیں گے۔

ماس نے مزید کہنا تھا کہ آنے والے وقت میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ اس کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ سب کو آگاہ ہونا چاہئے کہ کسی بھی اشتعال انگیزی سے حالات بے قابو ہوسکتے ہیں۔ماس نے انکشاف کیا کہ فرانس ، برطانیہ اور علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لیے بات چیت کررہےہیں۔

ان بیانات کے ساتھ حزب اختلاف کی لبرل پارٹی کی طرف سے جرمنی میں امریکی فوجی ہیڈ کوارٹر اور یہودی عبادت گاہوں کے آس پاس سیکیورٹی سخت کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جرمن ریاست رائن ویسٹ فالیہ کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا کہ وہ سلیمانی کی ہلاکت کی صورت حال پرنظر رکھے ہوئے ہے اور ریاست میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ جرمنی میں حکومت یا حزب اللہ کے حامیوں کی طرف سے امریکی مفادات پرحملے ہوسکتےہیں۔

دہشت گرد سیل
برطانوی انٹلیجنس نے گذشتہ سال ایرانی حمایت یافتہ سیلز کے بارے میں متنبہ کیا تھا جو تہران کے حکم پر برطانیہ اور یورپ میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرسکتے ہیں۔

اخبار “ڈیلی ٹیلی گراف” کے مطابق انٹیلی جنس ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ یہ سیل لبنانی حزب اللہ ملیشیا سے منسلک ہیں ۔ برطانیہ حزب اللہ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔

انسداد دہشت گردی پولیس نے سنہ 2015ء میں حزب اللہ کا ایک سیل توڑ دیا تھا ۔ یہ سیل دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے سے پہلے ٹنوں کے حساب سے بارودی مواد ذخیرہ کررہا تھا۔

انٹیلی جنس ذرائع نے کے مطابق ایران حزب اللہ سے منسلک افراد کے نیٹ ورک کو دہشت گرد حملہ کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تہران برطانیہ میں سائبر حملوں کا ذمہ دار ہے۔ ایران سنہ 2017 برطانیہ دارالعوام، پوسٹ آفس ، لوکل گورنمنٹ اور نجی شعبے پرسائبر حملے کرچکا ہے۔

بلقان سیل
دسمبر سنہ 2018 ء میں امریکی انٹیلی جنس حکام نے بتایا کہ یورپی ممالک میں ایرانی حزب اختلاف پر ایرانی حملوں میں ناکامی کے بعد اب ایران اپنا جاسوسی اور انٹیلی جنس نیٹ ورک مشرقی یورپ سے بلقان ممالک میں منتقل کررہا ہے۔ ایران نے فرانس، جرمنی، بیلجیم، ڈنمارک، سویڈن اناروے میں اپنے ایجنٹوں اور جاسوسوں کی گرفتاری کے بعد بلقان ممالک میں اپنا نیٹ ورک منتقل کی تھا۔

امریکی “گلوب پوسٹ” ویب سائٹ نے انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ تہران حکومت نے خفیہ طور پر بلغاریہ ، مقدونیہ ، کوسوو اور دیگر ممالک میں اپنے انٹیلی جنس عناصرکو دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کے لیے لاجسٹک مراکز پرتعینات کرنا شروع کیا ہے۔

ذرائع نے یہ بھی ان ملکوں میں ایران پس منظر سے نکل کر سامنے آگیا ہے۔ تہران کی انٹلی جنس خدمات نے لبنانی حزب اللہ ملیشیا کے ایجنٹوں کو ذمہ داریاں تفویض کی تھیں۔

ان اطلاعات نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بلقان میں ایرانی موجودگی نے ابھی تک اس خطے میں خاطر خواہ توجہ حاصل نہیں کی ہے۔ عالمی سلامتی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی توجہ سے دور “خاموش” لاجسٹک اڈوں کی حیثیت سے تہران کے لیے بلقان ممالک اہمیت کے حامل ہیں۔ ان ملکوں کی بد انتظامی، بدعنوانی اور دیگر اندرونی مسائل ایرانی مداخلت سے توجہ ہٹانے کا باعث بن رہے ہیں۔