رویے کی شعبدہ بازی

Attitude

Attitude

تحریر : کامران غنی صبا

کبھی غور کر کے دیکھیے تو ایسا محسوس ہو گا کہ پوری کائنات ہمیں ہمارے رویے کے مطابق نظر آتی ہے۔ بلکہ اکثر تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہمارا رویہ ہی کائنات کا رویہ بن جاتا ہے۔اگر ہمارے رویے میں محبت شامل ہے تو کائنات بھی ہم سے محبت کرنے لگ جاتی ہے۔ اگر ہمارا رویہ منفی ہے تو پوری کائنات ہمیں ’’منفیات‘‘ کے حصار میں جکڑی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ اگر ایک شخص محبت تقسیم کرنے والا ہے تو بدلے میں اسے محبت ہی ملتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ بعض دفعہ اسے محبت کے بدلے میں نفرت بھی مل جائے لیکن اتنا تو یقینی ہے کہ سو لوگوں سے محبت سے پیش آنے والوں کو بدلے میں نوے افراد سے محبت ہی ملنی ہے۔اسی مقام پر پہنچ کر ’’رویہ‘‘ کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ اگر ایک شخص مثبت رویہ کا حامل ہوگا تو وہ نوے افراد سے ملنے والی محبت کی قدرو قیمت کو سمجھے گا۔ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ان محبتوں کا ذکر کرے گا اس کے برعکس منفی رویہ کا حامل شخص نوے افراد سے ملنے والی محبت کو بھول کر صرف دس افراد کواپنی گفتگو کو موضوع بنائے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ اس سے محبت کرنے والے بقیہ نوے افراد بھی رفتہ رفتہ اسے سے کنارہ کش ہوتے جائیں گے اور آخر کار وہ تن تنہا رہ جائے گا۔

انسان کی فکر اس کے رویہ سے ظاہر ہوتی ہے اور اس کا رویہ اس کے افعال و کردار سے ظاہر ہوتا ہے۔ مقررین، مصلحین، قلم کار اور دانشور طبقے کا رویہ ان کی تحریر و تقریر اور اسلوب ولفظیات سے ظاہر ہوتا ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مقررین اپنی تقریر میں ہمیشہ گلہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ زمانہ خراب ہے، ہر طرف گمراہی ہے، بددینی ہے، بے راہ روی ہے۔ ان کے خطابات سنیے تو سوائے لعن طعن کے شاید ہی کوئی تعمیری بات نکل کر سامنے آ سکے۔ بعض مقررین کی گفتگو سن کر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری کائنات میں ان کے سوا کوئی ہدایت یافتہ ہے ہی نہیں۔ ایسے مقررین کو اگر اختیار دے دیا جائے تو وہ اپنے اور اپنے پیروکاروں کے سوا ساری دنیا کو اٹھا کر جہنم میں جھونک دیں۔ وہیں بعض مقررین کی باتیں سیدھے دل پر نقش ہوتی ہیں۔ ان کے رویے میں نرمی ہوتی ہے۔ سوز ہوتا ہے۔ اسرارِ عشق ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات کو سمجھ کر اس کی اصلاح کی فکر ہوتی ہے۔یہی معاملہ اصحاب قلم کا بھی ہے۔ رویہ ہی قلم کو اسلوب عطا کرتا ہے اور اسلوب ہی قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔چنانچہ رویہ ہی زبان اور قلم کو مقبولیت عطا کرتا ہے۔بعض رویے ’مصنوعی‘ بھی ہوتے ہیں۔ خاص طور پر مقررین اور اصحاب قلم کے رویوں کی اصلیت تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔

بعض دفعہ تحریر و تقریر کا مصنوعی رویہ مصنف یا مقرر کے اصل رویہ سے بالکل برعکس بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی مقرر کے چند ایک خطابات کو سن کر یا کسی صاحب قلم کی چند ایک تحریروں کو پڑھ کر ہم اس کے اصل رویہ تک پہنچ جائیں ایسا کوئی ضروری نہیں ہے ۔ رویے کے مشاہدے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں جس شخص کے رویے کا مطالعہ و مشاہدہ کرنا ہے اس سے ہمارا راست تعلق بھی ہو۔ یعنی اگر کوئی مقرر یا صاحب قلم اپنی تحریر و تقریر میں صلہ رحمی پر بہت زیادہ زور دیتا ہے تو کوئی ضروری نہیں کہ حقیقی زندگی میں لوگوں سے اس کا رویہ صلہ رحمی والا ہی ہو۔ اگر اس کا رویہ حقیقی ہوگا تو اس کے قول و فعل میں یکسانیت ہوگی۔ دوراندیش اور ذہین سامع و قاری مقرر اور صاحبِ قلم سے ملے بغیر بھی اس کے رویے کا اندازہ لگا لیتا ہے۔

’رویہ‘‘ کے تعلق سے قابلِ غور پہلو یہ بھی ہے کہ ’’رویہ‘‘ اور ’’فکر‘‘کا ایک دوسرے سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ ہماری فکر کے مطابق ہی ہمارا رویہ تشکیل پاتا ہے۔ مثال کے طور پر چند ایک تجربات کے روشنی میں ہم نے اپنے ذہن میں ایک مفروضہ قائم کر لیا کہ بغیر جھوٹ بولے دفتر سے چھٹی نہیں مل سکتی ۔ اب اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دفتر سے چھٹی مانگنے والا ہر شخص ہمیں جھوٹا نظر آئے گا۔کچھ لوگوں کی فکر انتہائی منفی ہوتی ہے۔انہیں دنیا کے ہر کام میں عیب ہی عیب نظر آتا ہے۔ ایسے لوگوں کا رویہ بھی منفی ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک باپ کا رویہ اپنے بیٹے کے تعلق سے منفی ہے۔ اب اگر اس کا بیٹا امتحان میں کم نمبر لائے گا تو باپ کو شک ہوگا کہ اس کے بیٹے نے نصابی کتابوں کو ٹھیک سے پڑھا ہی نہیں۔ اور اگر اس کا بیٹا اچھے نمبر سے کامیاب ہو جائے تو وہ شک کرے گا کہ ضرور اس نے امتحان میں چوری کی ہوگی۔

رویہ میں مقناطیسی کشش ہوتی ہے۔ ہمارا رویہ جیسا ہوگا ہمیں ویسے ہی افراد و احباب بھی میسر آئیں گے۔ مثلاً جس شخص کا رویہ جھوٹ بولنے پر مبنی ہوگا بالکل یقینی سی بات ہے کہ اس کے حلقۂ احباب میں جھوٹ بولنے والوں کی کثرت ہوگی۔ منفی رویے کے حامل شخص کے ارد گرد مثبت رویے کے حامل افراد بہت کم نظر آئیں گے۔ جھگڑالو رویہ رکھنے والوں کا سابقہ اکثر جھگڑا کرنے والے لوگوں سے ہی ہوتا ہے۔ محبت کرنے والوں کو محبت اور نفرت کرنے والوں کو بدلے میں نفرت ہی ملنی ہے۔ یعنی ساری شعبدہ بازی رویوں کی ہی ہے۔معروف صوفی دانشور احمد اشفاق کہتے ہیں:
’’کوئی شخص ، کوئی رشتہ، کوئی جذبہ کبھی مشکل نہیں ہوتا۔ ان کے بھی پائوں ہوتے ہیں۔ بس ہمارا سلوک اور رویہ دیکھ کر کبھی یہ بھاگ کر قریب آ جاتے ہیں اور کبھی آہستہ آہستہ دور چلے جاتے ہیں۔

Kamran Ghani Saba

Kamran Ghani Saba

تحریر : کامران غنی صبا