آنگ سان سوچی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ

Aung San Suu Kyi

Aung San Suu Kyi

میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار میں فوج کے ٹیلی وژن چینل کے مطابق آنگ سان سوچی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔

نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی کو پیر یکم فروری کو فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ اس وقت اپنے گھر پر نظر بند ہیں۔ فوج نے سول حکومت کو فارغ کرنے کے بعد صدر اور سوچی کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے تقریبا تمام نومنتخب اراکینِ پارلیمنٹ کو حراست میں لے رکھا ہے۔

آنگ سان سوچی کے خلاف پولیس نے بدھ تین فروری کو مقدمہ درج کیا۔ پولیس کے مطابق بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی وجہ ان کا ملک کے تجارتی قوانین سے انحراف ہے۔ پولیس نے مقامی عدالت سے انہیں پندرہ فروری تک حراست میں رکھنے کی استدعا کی ہے۔

دوسری جانب فوج نے آنگ سان سوچی کی رہائش گاہ کی تلاشی بھی لی ہے۔ اس تلاشی کے دوران ان کے پاس سے مبینہ طور پر بغیر اجازت امپورٹ کیے گئے ‘ریڈیوز‘ برآمد کیے گئے ہیں۔

پولیس کے مطابق سابق صدر وِن مِنٹ کے خلاف قدرتی آفات کے دوران قواعد کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان پر گزشتہ برس انتخابی مہم کے دوران کووڈ انیس کی وبا کے نافذ شدہ ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ریلی میں شریک ہونے کے الزام لگایا گیا ہے۔

فوج کا اقدام
میانمار کی فوج نے حکومت پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا ہے۔ فوج ایک سال بعد پارلیمانی انتخابات کروانے کا اعادہ کر چکی ہے۔میانمار: ملک پر فوج کا کنٹرول، آنگ سان سوچی حراست میں

میانمار میں یکم فروری کو نو منتخب پارلیمنٹ نے حلف اٹھانا تھا۔

فوج نے اراکینِ پارلیمنٹ کو سرکاری رہائش گاہیں فوری طور پر خالی کرنے کا بھی حکم دے رکھا ہے۔

فوج گزشتہ برس کے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیتی ہے اور اس نے افتتاحی اجلاس کے انعقاد کے بجائے آنگ سان سوچی کی حکومت کو دوبارہ عام انتخابات کرانے کا مشورہ دیا تھا۔ انتخابات میں خاتون رہنما کی سیاسیجماعت کو واضح کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

جی سیون گروپ کی مذمت
ادھر صنعتی طور پر ترقی یافتہ اور امیر ممالک کے گروپ جی سیون کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں میانمار میں فوج کے اقتدار پر قبضے کی پرزور الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ ایک بیان میں کہا گیا کہ ان ممالک کو فوجی اقدام پر گہری تشویش ہے۔سوچی کی گرفتاری سے روہنگیا مہاجر خوش کیوں ہیں؟

جی سیون گروپ نے کہا ہے کہ فوج فوری طور پر ایمرجنسی ختم کرے اور جمہوری حکومت کو بحال کرے۔ اس بیان میں میانمار کی فوج سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کا ہر ممکن احترام کرے۔

امیر ممالک کے جی سیون گروپ میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، امریکا، جاپان اور برطانیہ شامل ہیں۔