آہ !عزیز ظفر آزاد صاحب بھی اس جہاں سے گئے

Aziz Zafar Azad

Aziz Zafar Azad

تحریر : محمد پرویز بونیری

عزیز ظفر آزاد کوئی عام شخص نہ تھے بلکہ وہ اس قحط الرجال کے زمانے میں ایک بہت بڑے صحافی، عالم فاضل اور دانشور تھے۔گذشتہ چند سال سے گلستانِ ادب کے ایسے پھول مر جھا گئے، جن کے دم سے چمن کی رونق تھی۔ہم کس کس کا ماتم کریں، جب سے ہم نے گلستان ِ ادب کے پھولوں کی خوشبو محسوس کی ہے اور ہمیں زندگی کا تمام حسن اور رعنائی انہیں پھولوں کی مرہون منت معلوم ہوئی ہے ، تب سے یہ پھول مسلسل مرجھارہے ہیں۔ اگر ایک طرف جمیل الدین عالی، عبداللہ حسین، ڈاکٹرانورسدید،انتظارحسین،فہمیدہ ریاض، بانوقدسیہ ، ڈاکٹرسلیم اختر، انورسجاد اورمشتاق احمدیوسفی جیسی ہمہ جہت شخصیات نے داعیِ اجل کو لبیک کہاتودوسری طرف عزیز ظفرآزاد جیسے روشن خیال ادیب، مشفق بزرگ، دینی اوردنیوی سمجھ بوجھ رکھنے والے صحافی اوردانشوربھی اس ماہ کے 4جون کوہم سے ہمیشہ کے لئے بچھڑگئے۔

آہ آزادجہاں سے گیا
بزم اردومیں گھپ اندھیراہے

ادب کے حوالے سے عزیز ظفرآزاد کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔روزنامہ نوائے وقت میں ”جرس جمہور” کے عنوان سے انکاکالم باقاعدہ سے شائع ہوتاتھا، جن میں مذہبی، تہذیبی اورمعاشرتی موضوعات کے ساتھ ساتھ تعلیم اورادب پر سیر حاصل بحث ہوتی تھی۔ موصوف کاخاص میدان اردوزبان اوراسکانفاذ تھااوراسی مقصدکے لئے جدوجہد کرتے کرتے خالق حقیقی سے جاملے۔ اردوزبان کے نفاذ کے لئے انہوں نے ہرمحاذ پرآوازاٹھائی اورعملی جدوجہدمیں پیش پیش تھے۔عدالت عظمیٰ میں نفاذ اردوکامقدمہ دائرہوا توعزیزظفرآزادصاحب نہ صرف اپنے ساتھیوں سمیت اس میں شریک ہوئے بلکہ فریق بھی بنے۔ یہ مقدمہ ایک لمبی جدوجہد کے بعد سال 2015ء میں پایہ تکمیل تک پہنچااورفیصلہ اردوکے حق میں آیا۔اسکے بعد لاہورہائی کورٹ اورمختلف عدالتوں میں اردوزبان کے نفاذ کے لئے مختلف مقدمات زیرسماعت رہیں، جن میں آزاد صاحب ہر پیشی پر بہ نفس نفیس حاضرہوتے رہے۔

میری آزادصاحب سے پہلی ملاقات سال 2016ء میں نفاذ اردوکانفرنس اسلام آبادمیں ہوئی ، جس میں پاکستان قومی زبان تحریک کے بڑے بڑے نام پروفیسرسلیم ہاشمی،فاطمہ قمرصاحبہ، حامدانورصاحب اوردیگراکابرین شامل تھے ۔ کانفرنس کے مہمان خصوصی اورصدارات کی فرائض ڈاکٹرعبدالقدیرخان اورعرفان صدیقی صاحب نے ادا کئے۔اجلاس کے اختتام پر ایک مشاورتی نشست کااہتمام کیاگیا ، جہاں تحریک کے اکابرین کے ساتھ ساتھ ہم جیسے نوآموزبھی موجودتھے۔اردوزبان کے نفاذ کے لئے کافی لمبی گفتگوہوئی ۔ چونکہ عزیز ظفرآزادصاحب تب سے عارضہ چشم میں مبتلاتھے اورانکی بصارت کمزور تھی۔پروفیسر سلیم ہاشمی صاحب نے باری باری تحریک کے نئے کارکنان کاتعارف کروایا۔ میری باری آئی تومیں آزادصاحب کے پاس ایک کرسی پربیٹھا۔انہوں نے میرے سرپرہاتھ رکھ کر دعائیں دیں اورآج تک مجھے یادہے کہ انہوںنے ہماری ادنیٰ سی کاوشوں کو کس قدرسراہاتھا۔ مجھے کہنے لگے ” پٹھانوں میں اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی صفات رکھی ہوئی ہیں۔

آپ نے اردوکے لئے کام شروع کیاہے تواس مقدس ذمہ داری کو نبھانے کی بھرپورکوشش کرنا”۔انکی باتیں ایسی دلاویز اوردل نشین تھیں کہ کافی دیرتک گل افشانی کرتے رہے اورہم نے پل بھربھی انکے پہلوسے سرکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمہ تن گوش رہیں۔ ہمیں انکے قرب میں شفقت پدری کااحساس ہوا۔اسکے بعدہمارے روابط بذریعہ فون ہوتے رہیں۔آزادصاحب اکثرمجھے کال کرکے اردوزبان کے نفاذ کے لئے لمبی لمبی باتیں کرتے تھے۔مجھے انکے ساتھ قلبی اورقلمی لگائوتھا ، اسلئے وہ جوکچھ فرماگئے، میں دل سے سنتارہا اورجوکچھ لکھا، پوری دل جمعی سے پڑھتارہا۔انکے اندازنگارش نے میرے قلم کو اظہارکے بہت سے تیورعطاکئے۔عزیزظفرآزادایسی شخصیت تھے، جنکی زبان میں تاثیر ، قلم میں ولولہ ، لفظوں میں بانکپن ، دل میں سرور اورآنکھوں میں نورتھا۔ انکی سوچ میں دانائی، گفتارمیں سچائی اورکردار میں رعنائی تھی۔

میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ اس دورپرفتن اورمادہ پرستی میں آزادصاحب نے بحیثیت پاکستانی شہری دنیاکے سب سے مقدس فرض کی تکمیل میں اپنی زندگی لٹائی۔نہ اپنی صحت کی فکر،نہ معاش کے لئے سرگرداں ، نہ اہل عیال کاغم،بس اردوزبان کے نفاذکی سوچ تھی۔ جب اس فکر میں سرگرداں ہوتے تھے توپاکستان کے گوشے گوشے میں موجودکارکنان کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے کرتے اوراردو زبان کے نفاذ کے لئے انہیں ہدایات دیتے۔دنیامیں بہت سے لوگ ہوتے ہیں ،جوسستی شہرت اورخودنمائی کے لئے ہرکام کرگزرتے ہیں ، مگرآزادصاحب ایسے نہیں تھے بلکہ انہوںنے پاکستانی قوم کو انگریزاورانگریزی کے جبری تسلط سے آزادکرنے کے لئے بے لوث خدمات کیں۔آخری ایام میں اگرچہ وہ علیل تھے، مگر ادبی ، فنی اورسماجی روابط جاری رکھے ہوئے تھے۔

انہوں نے پاکستانی قوم کو یہ احساس دلایاکہ قوم کی پہچان قومی زبان ہوتی ہے۔جوقومیں اپنی قومی زبان کی قدرکرتے ہیں، وہ ترقی کے سفرمیں بہت آگے نکلتی ہیں اور جوقومیں غیروں کی زبان اورتہذیب وثقافت کوطرہ امتیاز اورغازہ رخسارسمجھتی ہیں ، وہ تاریخ کے چوراہے پر نشان عبرت بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس مقدس جدوجہد کو آزادصاحب کے لئے توشہ آخرت بنائے اورانہیں آخرت کی بہترین سعاتوں سے نوازے۔

بے شک آدمی مرحوم ہوجایاکرتے ہیں ، مگرانکی جدوجہد موہوم نہیں ہوتی۔آج بھی الحمدللہ پاکستان قومی تحریک موجود ہے ، جوکہ اس مقدس فرض کی تکمیل کے لئے آزادصاحب کے مشن کو جاری رکھے گی۔

MP Khan

MP Khan

تحریر : محمد پرویز بونیری