بابری مسجد کیس: آل انڈیا مسلم بورڈ کا عدالتی فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان

Babri Masjid

Babri Masjid

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) آل انڈیا مسلم بورڈ نے بابری مسجد کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا۔عرب خبر رساں ادارے کے مطابق آل انڈیا مسلم بورڈ نے متنازع زمین پر مسلمانوں کے دعوے کو مسترد کیے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا جس میں عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کی استدعا کی جائے گی۔

آل انڈیا مسلم بورڈ کے رکن سید قاسم الیاس کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں بظاہر کچھ پیچیدگیاں ہیں جس کے باعث اس پر نظرثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

عرب میڈیا کاکہنا ہےکہ کیس کے مرکزی فریق سنی وقف بورڈ نے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے خلاف نظرثانی اپیل نہ دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

دوسری جانب بھارتی میڈیا کے مطابق آل انڈیا ہندو مہاسبھا کا کہنا ہےکہ آل انڈیا مسلم بورڈ ایودھیا کیس میں فریق نہیں اس لیے وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی اپیل دائر نہیں کرسکتے۔

ہندو مہاسبھا کے رکن کا کہنا تھا کہ آل انڈیا مسلم بورڈ کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا عدالتی فیصلے کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ سنی وقف بورڈ نے کرنا ہے کیونکہ اس معاملے میں صرف فریق ہی نظرثانی کی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات سمجھ سے باہر ہےکہ آل انڈیا مسلم بورڈ کیسے عدالتی فیصلے میں پیچ و خم تلاش کررہا ہے، عدالت نے یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت دیا جس میں سپریم کورٹ نے اس معاملے کے تمام پہلوؤں کو واضح کردیا اور عدالت نے فیصلہ کردیا ہےکہ متنازع زمین پر مسلمانوں کی کوئی ملکیت نہیں ہے۔

1528ء میں مغل دور حکومت میں بھارت کے موجودہ شہر ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے حوالے سے ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔

برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کیلئے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔

بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے 1980 میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع کی تھی۔

1992 میں ہندو انتہا پسند پورے بھارت سے ایودھیا میں جمع ہوئے اور ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں 6 دسمبر کو سولہویں صدی کی یادگار بابری مسجد کو شہید کر دیا جب کہ اس دوران 2 ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں، بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی کو اس سلسلے میں عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔

حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کیلئے کئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر کو بابری مسجد کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے مسجد ہندوؤں کے حوالے کردی اور مرکزی حکومت ٹرسٹ قائم کرکے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا حکم دے دیا جب کہ عدالت نے مسجد کے لیے مسلمانوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔