بحرین اور اسرائیل میں امن معاہدہ ؛ سات اہم واقعات اور دورے جو بنیاد بنے!

Meeting

Meeting

بحرین (اصل میڈیا ڈیسک) بحرین اور اسرائیل معمول کے تعلقات استوار کرنے کے لیے تاریخی امن معاہدے پر دست خط کر رہے ہیں۔یہ امن معاہدہ کوئی اچانک طے نہیں پایا ہے بلکہ ان دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ تین سال سے مختلف شعبوں میں روابط جاری تھے۔

اس عرصہ کے دوران میں اسلام اور یہودیت کے پیروکاروں کے درمیان مکالموں کا تبادلہ ہوا اور اسرائیلی اور بحرینی حکام نے ایک دوسرے کے ہاں سکیورٹی کانفرنسوں میں شرکت کی ہے۔یہاں ان سات اہم واقعات اور دوروں کی مختصر تفصیل بیان کی جارہی ہے جو اس امن معاہدے پر منتج ہوئے ہیں:

بحرین سے تعلق رکھنے والے ایک بین المذاہب گروپ نے 12 دسمبر سے 14 دسمبر 2017ء تک اسرائیل کا تین روزہ دورہ کیا تھا۔

25 ارکان پرمشتمل اس وفد میں مسلم ، عیسائی ، ہندو اور بدھ مت شامل تھے۔اس کے نصف ارکان بحرینی شہری تھے۔تب بحرین کی سرکاری خبررساں ایجنسی (بی این اے) نے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ وفد ملک کے کسی سرکاری ادارے کا نمایندہ نہیں ہے۔

نیویارک سے تعلق رکھنے والے یہود کے کمیونٹی گروپ نے بحرین کا 25 فروری 2018ء کو دورہ کیا تھا۔انھیں بحرین کے شاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ نے اس دورے کی دعوت دی تھی۔

اس وفد کی قیادت ربی مارک شنائر کررہے تھے۔انھیں بعد میں شاہِ بحرین نے ’’شاہ حمد عالمی مرکز برائے پُرامن بقائے باہمی‘‘ کا مشیر مقرر کیا تھا۔

شنائر نے العربیہ کو بتایا تھا کہ ’’ہم منامہ میں واقع ایک صومعہ اور یہود کے ایک قبرستان میں گئے تھے۔‘‘

اس گروپ نے بحرین کی مقامی یہودی کمیونٹی کے ارکان سے ملاقات کی تھی۔ان میں امریکا میں بحرین کے سابق سفیر ہودا نونو ، پارلیمان کی رکن نینسی خدوری اور کمیونٹی کے لیڈر مائیکل یادگار شامل ہیں۔

اسرائیل کے سابق وزیر اقتصادیات ایلی کوہن نے تب ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’انھیں بحرین کے دارالحکومت منامہ میں 2019ء میں منعقد ہونے والی ایک وزارتی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔‘‘

گذشتہ سال بحرین کے دارالحکومت منامہ میں وائٹ ہاؤس کے زیراہتمام امن سے خوش حالی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔اس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقِ اوسط کے لیے اپنے 50 ارب ڈالر مالیت کے اقتصادی منصوبہ کا اعلان کیا تھا اور اسرائیل ، فلسطینی تنازع کے حل کے لیے اپنا منصوبہ پیش کیا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے کسی اسرائیلی عہدے دار کو اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا تھا لیکن اسرائیلی صحافیوں کو اس کانفرنس کو کور کرنے کی دعوت دی گئی تھی اور انھوں نے اس وقت بحرین کے وزیرخارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ کا انٹرویو کیا تھا۔

بحرینی وزیرخارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ نے اپنے اسرائیلی ہم منصب (سابق وزیر خارجہ) اسرائیل کاتز سے پہلی مرتبہ امریکی محکمہ خارجہ میں مذہبی آزادی کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں کھلے عام ملاقات کی تھی۔

محکمہ خارجہ نے ان دونوں وزراء کی ملاقات کی تصویر جاری کی تھی۔کاتز نے بعد میں ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ انھوں نے آل خلیفہ سے ایران اور علاقائی خطرات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے۔

اسرائیلی وزارتِ خارجہ کی انسداد دہشت گردی کی ڈائریکٹر ڈانا بینوستی نے بحرین میں 21 اکتوبر2019ء کو میری ٹائم سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔

مقبوضہ بیت المقدس ( یروشلیم ) کے سابق چیف ربی شلومو عمرو نے 9 دسمبر 2019ء کو بحرین کا دورہ کیا تھا اور ایک بین المذاہب فورم میں شرکت کی تھی۔اس فورم میں کویت ، لبنان ، مصر اور اردن سے تعلق رکھنے والے مذہبی زعماء نے بھی شرکت کی تھی۔