بلدیہ فیکٹری سانحہ میں زندہ جل والے ٢٥٩ مزدوروں کے مقدمے کا فیصلہ

Baldia Factory Tragedy

Baldia Factory Tragedy

تحریر : میر افسر امان

کراچی میں سانحہ بلدیہ فیکٹری میں زندہ جل جانے والے ٢٥٩مزدورں کے مقدمہ کا فیصلہ دہشت گردی کی عدالت نے ٢٧٠ صفحات پر مشتمل٨ سال کاروائی چلانے کے بعد سنا دیا ۔ایم کیو ایم کے کارکن رحمان بھولا اور زبیر چریا کو ٢٦٤ دفعہ سزائے موت،بھتہ کے الزام میں دس ،دس سال قید،گیارہ لاکھ جرمانہ ، مزدورں کے اہل خانہ کو ستائیس ستائیس لاکھ دیت دینے، سہلولت کاروں کو عمر قید کی سزا اورعدم ثبوت پرر ئوف صدیقی، عمر حسن، ڈاکٹر عبدالستاراور دیگر کوبری کر دیا۔حماد صدیقی، علی حسن اشتہاری ملزم قرار دے دیے گئے۔

اس فیصلے پر شہید مزدوروں کے لواحقین سرپا احتجاج بن کر جماعت اسلامی کراچی کے دفتر پہنچے۔ جماعت اسلامی ان مظلوں کی پہلے دن دار رسی کرتی رہی ہے۔انہوں نے امیر جماعت اسلامی حافظ انجینئر نعیم الرحمان صاحب سے اپنے تحفظات کو عدلیہ اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کی درخواست کی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی نے مزدوروں کے ان لواحقین کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔ اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جل جانے والوں کے لواحقین اور متاثریں کی امیدوں کے مطابق نہیں۔ان کو امید تھی کہ ٨ سال بعد سانحہ بلدیہ فیکٹری فیصلہ میںماسٹر مائنڈ ، منصوبہ سازروں اور فیکٹری میں مزدوروں کو جلانے والے سب کو سزا ملنی چاہیے تھی جو نہیں ملی۔بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری کو جن کی ایما پر جلا دیا گیا اور جن لوگوں نے فیکٹری کو گھیر کر مزدوروں کو باہر نہیں نکلنے دیا، ان کو بھی سزا ملنی تھی مگر ان کو بھی سزا نہیں دی گئی۔اس لیے پاکستان کی سپریم کورٹ سے ہم درخواست کرتے ہیں کے جل جانے والوں کی لواحقین اور متاثرین کی داد رسی کے لیے انصاف دلایا جائے۔پریس کانفرنس میں جل جانے والے مزدوروں کے بزرگ ،خواتین اور بھی شامل تھے۔

جنہوں نے خود اپنے تحفظات کو عوام کے سامنے بیان کیا۔ اس پریس کانفرنس کے دوران مکمل انصاف نہ ملنے پر مر جانے والوں کے پیارے بزرگ و خواتین غم میں رو رو کرنڈھال ہو رہے تھے۔انہوں نے منصوبہ کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی کی طرف سے عوام کو قانونی و اخلاقی ریلیف پہنچانے کے لیے قائم کردہ” کراچی پبلک کمیٹی” کے صدر نجیب ایوبی صاحب بھی شریک تھے۔ ان مظلوں کے رشتہ داروں پر مشتمل ایک پبلک ایڈ کمیٹی بھی بنائی گئی تھی۔ اس کمیٹی کے نگراں محمد صابر،محمد اسراراکرام اور دیگر بھی موجود تھے۔جماعت اسلامی کے سیکرٹیری اطلاہات سیدزاہد عسکری اورعثمان فاروق ایڈوکیٹ بھی اس احتجاجی پریس کانفرنس میں موجود تھے۔امیر جماعت کراچی نے کہا وہ دہشت گردی کی عدالت کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی درخواست کر تے ہیں کہ لواحقین کو مکمل انصاف فراہم کیا جائے۔لواحقین کے ساتھ ظلم روا رکھا گیا۔ جرمنی کی کمپنی کی طرف سے جل جانے والوں کے لواحقین کو فراہم کیے گئے ٥٢ کروڑ ابھی تک لواحقین کو نہیں دیے گئے۔اس رقم پر سندھ حکومت نے قبضہ کر رکھا ہے۔

ہمارا مطالبہ کہ لواحقین کو یک مشت یہ امدادی رقم دی جائے۔ سانحہ بلدیہ کا یہ مقدمہ ٨ سال سے عدالتوں میں چلتا رہا۔ اس دوران جن بڑو ں کے نام مقدمے میں آئے وہ آج بھی مختلف جماعتوں میں شامل ہیں۔ کچھ واشنگ مشین میں دھل کر صاف ہوگئے ہیں۔جن دو مجروںکو سزا سنائی گئی وہ تو سامنے کے کردار ہیں۔لیکن ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو تحفظ دیا جاتا رہا۔ وہ آج بھی قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ اس کے علاوہ انصاف ملنے میں بھی بہت دیر ہوئی ہے ۔ قصاص اور دیت کا قانون موجود ہے اس کے مطابق فیصلے ہونے چاہیں۔ انگریزی قانون میں انصاف دیر سے اور آدھا ملتا ہے۔ سانحہ بلدیہ” پبلک ایڈکمیٹی” کے عہداداروں نے کہا کہ فیصلہ ١٧ ستمبر کو آنا تھا جسے کچھ دن لیٹ سنایا گیا۔ لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کے جن بڑے لوگوں کے نام جے آئی ٹی میں آ تے رہے ان بڑوں کو بچا لیا گیاہے؟ صرف نیچے والوں کو سزا سنا دی گئی۔ اس سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے ۔

صاحبو!دہشت گرد ، فاشست اورمصنوعی مہاجر قومیت کے نام پر ملک میں دہشت پھیلانے اور بے گنائوں کے قاتل غدار پاکستان الطاف حسین ہزاروں بے گناہوں کے قاتل ہیں۔ پاکستان کے غدار ہیں۔پاکستان کی سینیٹ، قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسبملیوں ،بلدیاتی ادروں سب نے الطاف حسین کی دہشت گردی پر اس کے خلاف آئین ِپاکستان کی دفعہ ٦ کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے قراردادیں منظور کی تھیں۔ ان قراردادوں پر آج تک عمل نہیں کیا گیا۔پاکستان کے ہر بڑے شہر کے محب وطن عوام نے دہشت گرد الطاف حسین کی پاکستان کے خلاف غدراری پر ایف آئی آر کٹوائیں تھیں۔عدالت نے الطاف حسین کی تصویر تقریر پر پابندی تو لگائی تھی مگر مرکزی حکومت نے الطاف حسین کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم نہیں کیا؟ الطاف حسین نے شروع میں ہی ایم کیو ایم کے کارکنوں کو ہدایت دی تھی ۔” موت یا حقوق” کارکنوں سے کہا تھا کی ٹیلیویژن اور وی سی آر فروخت کر کے اسلحہ خریدو۔جب عامر خان اورآفاق احمدنے الطاف حسین سے دہشت گردانہ کاروائیوں پر اختلاف کیا، تو الطاف حسین نے حکم دیا کہ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا

٢
حقدار ہے۔ پورے کراچی شہر میں اس سلوگن کے پوسٹر لگائے گئے۔ پھر مخالفوں کا عام قتل شروع ہوا۔ الطاف حسین کے دہشت گردوں نے ایک دن میں سو سو(١٠٠) مزدوروں کو شہید گیا ۔ ایک سو پر تشدد ہڑتالیں کی گئیں۔ اعلان ہونے پر دہشت گرد شہر میں قتل و غارت شروع کر دیتے ۔ شہری اور تاجر خوف کے مارے گھروں میں چھپ کر بیٹھ جاتے۔اسی بلدیہ کی فیکٹری کے مالکان سے کروڑوں کابھتہ مانگا گیا۔ْ نہ ملنے پر اندر کام کرنے والے مظلوم مزدروں کو فیکٹری میںبند کر کے تالے لگا دیے گئے۔ بے گناہ٢٥٩ مزردوں کو فیکٹری کے اندر ہی زندہ جلا دیا گیا۔ سفاکیت یہ ایک واقعہ سامنے آیا۔ ورنہ ایسے چھوٹے چھوٹے ہزاروں واقعات ہوئے جن کو لوگوں نے خوف اور ڈرکی وجہ سے رپورٹ نہیں کیا۔ ایک طویل مدت ٨ سال بعد عدالت نے فیصلہ سنایا۔ دیر آمد درست آمند، جو اچھی بات ہے، مگر شہیدمزدوروںکے لواحقین کے دلوں کو ٹھنڈک نہیں پہنچی۔ ان کے مطابق سانحہ بلدیہ کے ماسٹر مائنڈ دہشت گرد الطاف حسین، سہلولت کار، فیکٹری کو گھیرنے والوں اور جن جن کے نام جے آئی ٹی میں آئے ان کو بھی سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اللہ مظلوں کا مددگار ہو آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان