بلوچ اور سندھی علیحدگی پسندوں کا مشترکہ محاذ

Weapons

Weapons

بلوچستان (اصل میڈیا ڈیسک) بلوچ اور سندھی علیحدگی پسندوں نے سندھ اور بلوچستان کی مبینہ آزادی کے لیے مشترکہ عسکری محاذ تشکیل دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ عسکریت پسندوں کے بقول مشترکہ فرنٹ کی تشکیل کا فیصلہ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں کیا گیا۔

بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے اتحاد (براس) اور سندھی مزاحمتی تنظیم (ایس آر اے) جسے سندھو دیش ریوولوشنری آرمی بھی کہا جاتا ہے، نے مشترکہ عسکری فرنٹ کے قیام کا دعویٰ ایک اجلاس کے اعلامیے میں کیا ہے، جس میں دونوں تنظیموں کے عہدیداران نے شرکت کی ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کی مشترکہ تنظیم بلوچ راجی آجوئی سنگر(براس)، چار کالعدم عسکریت پسند تنظیموں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ ، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بلوچ ریپبکن گارڈز پرمشتمل ہے۔

پاکستان میں دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کہتے ہیں کہ براس اور آیس آر اے کے مشترکہ محاذ سے خطے میں سکیورٹی چیلنجز میں مزید اضافہ ہو گا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا، ”میرے خیال میں اب پاکستان میں حکومت کو زمینی حقائق کا ازسرنو جائزہ لینا ہو گا۔ سندھ اوربلوچستان میں بدلتے حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ وہاں طاقت کے بجائے جمہوری طریقے سے معاملات کو دیکھا جائے۔ یہ تمام کوششیں عوام اور ریاست کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔‘‘ طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ کچھ ایسی درپردہ قوتیں ہیں جو کہ یہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان معاشی اور دفاعی لحاظ سے مضبوط ہو۔

انہوں نے مزید کہا، ”اس اتحاد کی تشکیل میں کلیدی کردار بھارت کا ہوسکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہاں نہ صرف شورش میں مزید اضافے کا امکان ہے بلکہ بدامنی سے غیرملکی سرمایہ کاری پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔‘‘

طلعت مسعود کا مزید کا کہنا تھا کہ اگرچہ سندھ میں حالات بلوچستان سے بہت مختلف ہیں تاہم وہاں بھی ایک ایسی سوچ موجود ہے، جو ریاستی پالیسیوں کے خلاف ہے۔ انسٹی ٹیوٹ اف اسٹریٹیجک اسٹڈیز پاکستان کے طلعت شبیر کہتے ہیں کہ بلوچ اور سندھی مذاحمتی تنظیموں کا اتحاد خطے کی مجموعی سلامتی کو داؤ پر لگانے کی ایک سازش ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،”پاکستان کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہماری مختلف فالٹ لائنز کو ملک دشمن عناصر ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ بلوچ اور سندھی علیحدگی پسندوں کے اتحاد کے ذریعے ایک نیا کھیل شروع کیا جا رہا ہے جس میں قوم پرستی کا کارڈ بہت اہم ہو گا ۔‘‘

ڈاکٹر طلعت شبیرنے بتایا کہ قومی پالیسی کی تشکیل میں سیاسی قائدین کی جامع شرکت ان حالات کو مزید بگاڑنے سے بچانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ”پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لیے یہاں دہایئوں سے ملک دشمن قوتیں اپنے آلہ کاروں کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ ایک منظم ایجنڈے کے تحت ایسا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے تا کہ غیر ملکی سرمایہ کار یہاں خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگیں۔‘‘

بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ملک عبدالولی کے بقول علیحدگی پسند تنظیموں کا نیا اتحاد ریاست کی جاری استحصالی پالیسیوں کا ایک ردعمل بھی ہو سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”پاکستانی ریاست اگر بلوچ اور سندھی قوم کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور قومی محرومیوں کی پرواہ کرتی تو آج یہ نہ ہوتے۔ بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری پرصوبے کے حقیقی قائدین کی تشویش کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ صوبے کے ساحل اور وسائل پر مقامی افراد کی خودمختاری کو تسلیم کیے بغیر، اس صورتحال میں بہتری سامنے نہیں آ سکتی۔‘‘

دوسری جانب بلوچ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیر محمد بگٹی کہتے ہیں کہ پاکستان میں ریاست نے زمینی حقائق کی بنیاد پر کبھی کوئی پالیسی مرتب نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا، ”پاکستانی ریاست کی پالیساں گزشتہ ستر سالوں میں تسلسل کے ساتھ ملک کو بحرانوں کا شکار کرتی رہی ہیں۔ ریاست نے قومی مفاد پر مبنی پالیسی کبھی مرتب نہیں کی ہے۔ انہی اقدامات کا نتیجہ آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کس طرح وجود میں آیا۔ انہی پالیسیوں کی وجہ سے سندھ، بلوچستان، گلگت بلتسان، خیبر پختونخوا سب جل رہے ہیں اور اب تو پنجاب بھی اس آگ کی لپیٹ میں آتا جا رہا ہے۔‘‘

شیر محمد بگٹی کا کہنا تھا کہ ریاستی پالیسوں پر تنقید کو جو لوگ ماضی میں غیر سنجیدہ لے رہے تھے اب وہ بھی حقائق سے اگاہ ہوتے جا رہے ہیں۔