چار بلوچ خواتین کی گرفتاری، چار سکیورٹی اہلکار اغوا

Security Forces

Security Forces

کوئٹہ (اصل میڈیا ڈیسک) بلوچستان میں چند روز پہلے لاپتہ ہوجانے والے لیویز اہلکاروں کے اغوا کی ذمہ داری یونائٹڈ بلوچ آرمی نے لی ہے اور ضلع آواران سے گرفتار شدہ چار بلوچ خواتین کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ لیویز اہلکار تین دن قبل ضلع کچھی سے لاپتہ ہوگئے تھے جہاں وہ سڑک کی تعمیر کے کام کی سکیورٹی پر مامور تھے۔

یونائٹڈ بلوچ آرمی نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں لیویز اہلکاروں پر حملہ ہوتے اور اغوا ہوتے دکھایا گیا ہے۔ وڈیو میں آگے جاکر قطار میں کھڑے یہ اہلکار بلوچی زبان میں باری باری اپنا تعارف کراتے سنے جا سکتے ہیں۔

تنظیم نے ایک بیان میں حال ہی میں ضلع آواران سے سکیورٹی اداروں کی طرف سے حراست میں لی جانے والی چار بلوچ خواتین کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

حکام کے مطابق ان چار خواتین کو انتیس نومبر کو دہشت گردوں کی سہولت کاری کے الزام میں کیا گیا۔ لیویز فورس کی جانب سے جاری کی گئی ایک تصویر میں گرفتارخواتین کے ساتھ اسلحہ بھی دکھایا گیا تھا۔

صوبے کے وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے ایک بیان میں کہا کہ ان خواتین کو چھان بین کے بعد اٹھایا گیا۔ ان کے بقول گرفتار خواتین کو قانونی کارروائی کے لیے عدالت کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔

بلوچستان میں چار کالعدم تنظیموں کے اتحاد ( براس) نے سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے رد عمل میں اپنی مسلح کارروائیاں تیز کرنے کی دھمکی دی ہے۔

بلوچ راجی آجوئی سنگر یا “براس” میں بلوچ لبریشن آرمی ، بلوچ لبریشن فرنٹ ، بلوچ ریپبلکن گارڈز اور بلوچ ریبلکن آرمی شامل ہیں۔

براس نے رواں سال مئی میں ساحلی شہر گوادر میں پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری لی تھی۔ اس حملے میں تین حملہ آوروں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ادھر بلوچ خواتین کی گرفتاری پر پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے بھی سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔

بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی قیادت میں پارٹی اراکین نے قومی اسمبلی کےحالیہ اجلاس کے دوران سخت احتجاج کیا۔

ہفتے کو کوئٹہ پریس کلب کے باہر بی این پی کے مظاہرے میں بلوچ خواتین کی گرفتاری کی مذمت کی گئی اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

مظاہرے میں شامل بی این پی کے رہنما ملک عبدالولی خان نے کہا، “یہ ایک بہت خطرناک صورتحال بن چکی ہے۔ اب بلوچ مردوں کے ساتھ ساتھ بلوچ خواتین کو بھی بلاوجہ گرفتار کر کے صوبے میں چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا جار رہا ہے ۔”

انہوں نے مزید کہا، “ہم نے ہمیشہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل کی بات کی ہے۔ یہاں کے وسائل پر سب سے زیادہ حق صوبے کے عوام کا ہے ۔ریاستی ادارے غیرآئینی اقدامات کے زریعے صوبے کے وسائل پراختیار حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم حکومت کے اتحادی ضرور ہیں لیکن اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ ہم اپنے حقوق پرخاموش رہیں گے۔”

سیکیورٹی امور کے ماہر میجر (ر) عمر فاروق کے بقول، خواتین کی گرفتاری سے صوبے میں قیام امن کی صورتحال متاثر ہو سکتی ہے ۔ ان کا کہنا ہےکہ ناراض بلوچ رہنماوں کا اعتماد حاصل کیے بغیر حکومت بلوچستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار نہیں کر سکتی۔

انہوں نے کہا، ” میرے خیال میں بلوچ قومی جدوجہد پر حکمران زمینی حقائق پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ بدامنی کی وجہ سے تمام معاملات متاثر ہو رہے ہیں ۔ بی این پی جیسی جماعت جو پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتی ہے اسے بھی اگر دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو یقینا اس کے حوصلہ افزا نتائج نہیں نکلیں گے۔”