بی آئی ایس پی میں کرپشن کے ہوشربا انکشافات

BISP

BISP

تحریر: شہزاد حسین بھٹی

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سنہ 2008 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں غریب اور پسماندہ طبقے خصوصاً عورتوں کو مالی امداد فراہم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا جس کو مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں بھی جاری رکھا گیا۔اس پروگروام کے تحت عورتوں کو سہ ماہی بنیادوں پر پانچ ہزار روپے فی کس ادا کیئے جاتے تھے۔ اس پروگرام میں شمولیت کے لیے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں من پسند صاحب حیثیت لوگوں کو بھی نوازنے کی غرض سے شامل کیا گیا جسکی ایک مثال گوجر خان شہر کی اکثر دی جاتی ہے جہاں راقم ایسے کئی خاندانوں کو جانتا ہے جو اس کفالت پروگرام کے مستحق نہیں تھے لیکن محض انہیں نوازنے کی غرض سے جان بوجھ کر شامل کیا گیا۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کی حکومت اقتدار میں آئی تو انہوں نے بھی اپنے سیاسی ورکروں کو نوازے کے لیے اس پروگرام میں اندھا دھند شامل کیا۔جسکی وجہ سے اس پروگرام کی افادیت کم سے کم تر ہو تی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اس کے چیرمین بھی اپنی مرضی سے سیا سی طور پر نوازنے کے لیے لگائے جاتے رہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے گذشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد جب ریاست مدینہ کا نعرہ رندانہ بلند کیا تو اس کے ساتھ غریبوں اور ناداروں کے لیے مختلف پروگرام بیک وقت شروع کیے گئے۔ ملک کے کئی بڑے شہروں میں ماڈل مسافر خانے کھولے گئے جہاں مسافروں ، بھوکوں اورناداروں کے لیے عارضی پناہ گاہ بنائے گئے جہاں انہیں تینوں وقت کھانا پینا اور بستر کی سہولیات باہم پہنچائی گئیں۔ فقیروں اور بے گھر افراد کو اُٹھا کر ان مسافر خانوں میں لایا گیا۔ وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر احساس پروگرام کے تحت غریبوں کی حالت زار بدلنے کے لیے کئی پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ اداروں میں اصلاحات وژن کے تحت میرٹ پر تعیناتیاں کی جا رہی ہیں۔ جن کے دور رس نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیرمین ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو لگایا گیا جہنوں نے اس پروگرام میںآتے ہی اصلاحات شروع کیں۔ گذشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے حیران کن انکشاف کیا کہ وفاقی حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت امدادی رقم حاصل کرنے والے آٹھ لاکھ سے زائد افراد کو ‘مستحق افراد’ کی فہرست سے نکال دیا ہے۔اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام(بی آئی ایس پی) میں شامل افراد کے ڈیٹا پر نظر ثانی کی جارہی ہے تاکہ ایسے افراد کی نشاندہی کی جائے جن کے ذرائع آمدن کے مطابق وہ ‘مستحق افراد’ کی زمرے میں نہیں آتے۔

وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بعد چیئرمین بی آئی ایس پی ثانیہ نشتر کی جانب سے ایک ٹویٹ کی گئی جس میں انھوں نے آٹھ لاکھ سے زائد افراد کے نام اس پروگرام سے نکالنے کا ذکر کیاجن میںایسے افراد شامل ہیں جہنوںنے بیرون ملک خود یا انکی بیوی نے سفر کیا، ایک بار سے زائد سفر کیا یا بیوی نے سفر کیا،جنکے نام پر ایک یا زائد موٹرسائیکل یا کار رجسڑڈ ہے یا بیوی کے نام ایک یا زائد موٹر سائیکل یا گاڑی رجسڑڈ ہے، ایسے افراد جن کا ماہانا موبائل یا ٹیلیفون بل 1000 روپے سے زیادہ ہے،ایسے افراد جن کے شوہر/بیوی کا ماہانا موبائل یا ٹیلیفون بل 1000 سے زائد ،ایسے افراد جنھوں نے پاسپورٹ ایگزیکٹو فیس ادا کر کے بنوائے۔ان کے شوہر/بیوی نے پاسپورٹ ایگزیکٹو فیس ادا کر کے بنوائے،ایسے افراد جن کے خاندان کے ایک یا اس سے زائد افراد نے شناختی کارڈ ایگزیکٹو فیس ادا کر کے بنوائے۔سرکاری ملازم/ریلوے/پاکستان پوسٹ آفس یا بی آئی ایس پی کے ملازم،ایسے افراد جن کے شوہر/ بیوی سرکاری/ریلوے/پاکستان پوسٹ یا بی آئی ایس پی کے ملازم ہے،ایسے افراد کی کل تعداد8,20,165ہے۔

چیئرمین بی آئی ایس پی ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ ان میں اب 820165 ایسے افراد کے ناموں کو نکال دیا گیا ہے جو اس پروگرام کے معیار کے مطابق مستحق افراد میں شامل نہیں ہوتے اور ان کی جگہ نئے افراد کو مکمل جانچ پڑتال کر کے شامل کیا جائے گااور نئے شامل کیے جانے والے افراد کو بھی اسی معیار پر پرکھا جائے گا۔ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد ہے کہ اس پروگرام میں صرف ان افراد کو شامل کیا جائے جو حقیقی معانوں میں مالی مدد کے مستحق ہے۔

بعض حلقوں کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ حکومت نے ان افراد کو اس لیے نکالا کیونکہ ان کا تعلق دیگر سیاسی جماعتوں کے مستحق ورکرز سے تھا جبکہ پی ٹی آئی کے ورکرز کو اس سے فائدہ حاصل نہیں ہو رہا۔ اسی الزام کو تقویت پہنچاتے ہوئے پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اس پروگرام کو جیسے چلایا جا رہا ہے اس پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے آتے ہی پیپلز پارٹی کے اس مثالی پروگرام کا نام تبدیل کر کے اسے احساس پروگرام کے تحت کر دیا ہے۔اگر حکومت آٹھ لاکھ سے زائد افراد کا نام اس پروگرام سے نکالتی ہے تو اس کا مطلب اس کا پانچواں حصہ بنتا ہے۔پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت کا یہ اقدام سیاسی ہے۔ انھوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دور حکمرانی میں مزید غربت بڑھی ہے اور اگر حکومت ایسے میں بہانے بناتی ہے تو ہمیں ان پر یقین نہیں آئے گا کیونکہ حکومت نے اس پروگرام کو غیر شفاف طریقے سے چلایا ہے۔

بی آئی ایس پی میں ملک بھر سے 52 لاکھ افراد شامل ہیں جن کو حکومت مالی مدد فراہم کر رہی ہے۔موجودہ حکومت جہاں ملک کے دیگر اداروں سے کرپشن کا خاتمہ کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے وہیں اس غربت مکائو پروگرام سے بوگس افراد کی نشاندہی اور اور صرف اور صرف طے شدہ معیار کے تحت لوگوں کے ناموں کو نکالا ہے جو سیاسی تعصب سے بالا ترایک مثال ہے۔اگر ان غیر مستحق افراد کو ایک برس تک بی آئی ایس پی کے تحت مالی مدد دی جاتی تو قومی خزانے پر 16 ارب روپے کا بوجھ پڑتا۔ لیکن اب اس اقدام سے نہ صرف ملکی خزانے کی بچت ہوگی بلکہ اگلے برس سے زیادہ مستحق افراد تک یہ رقم پہنچے گی۔ ثانیہ نشتر نے قوم پر جہاں یہ احسان عظیم کیا ہے کہ آٹھ لاکھ سے زائد غاصبوں اور لُٹیروںکا انکشاف کیا ہے وہیں اگر وہ چند چیدہ چیدہ بڑے مفت خوروں کے نام بھی لے لیتیں جو مختلف کیٹگریوں میں فوائد حاصل کرتے رہے تویہ کم از کم مورخ کا کام تو آسان کرتے۔

Shahzad Hussain Bhatti

Shahzad Hussain Bhatti

تحریر: شہزاد حسین بھٹی