کتاب: ہوئے تم دوست جس کے

Book

Book

تحریر : میر افسر امان

اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بنائو۔ قرآن شریف کی یہ کھلی ہوئی ہدایت ہے۔ اسی ہدایت کو کتاب ”ہوئے تم دوست جس کے ” کے مصنف ڈاکٹر حقی حق نے اپنی کتاب کے پہلے صفحہ پر نمائیں طور پر لکھا ہے۔ یہ ہی کچھ تجربہ بھی بتاتا ہے۔ ڈاکٹر حقی حق نے اپنی کتاب میں اسے غالب کا ایک شعر لکھ کر مذید واضع کیا ہے:۔

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس آسماں کیوں ہو

پھر آگے صفحہ ١٠ پر مجھے ہے حکم ِ اذاں لا الہ الااللہ لکھ کر مسلمانوں کی بربادیوں کی کہانی لکھنا شروع کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ہم امریکہ کو فاتحین اُندلس کی باقیات کے حوالے سے دیکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ہسپانیہ میں میں جن ہاتھوں نے تیس لاکھ مسلمانوں کوبپتسما عیسائیت کے نام پر قتل کیا تھا۔ اب وہی بپتسما جمہورت کے نام پر کئی تیس لاکھ مسلمانوں کے خون ناحق سے رنگے ہیں۔ بپتسما عیسائیت سے بپتسما جمہورت تک ہم ایک ہی نظریے، ایک ہی عفریت اور ایک ہی ہاتھ سے قتل ہوئے ہیں۔(راقم) یہ اشارہ ہے ٢٠٠١ء میں افغانستان کی جائز افغان طالبان کی امارت اسلامی پر امریکا کے حملے کا کہ جس میں پاکستان کے ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے فوج اور سیاسی لیڈر شپ سے بغیر مشورے کے لاجسٹک سپورٹ کے نام پربحری، بری اور ہوائی راستے دے پاکستان کو نقصان پہنچایا تھا۔ اور اب مکافات عمل سے گزر رہا ہے۔

پھر امریکا نے عراق کے پاس ماس ڈسٹرکشن اسلحہ ہونے کے جھوٹے الزام پر حملہ کیا۔ یہ کیا !نائین الیون کے خود ساختہ واقعہ کر وا کر پوری مسلم دنیا کو دہشت گرد ،فنڈامنٹلسٹ، وحشی اور نہ جانے کون کون سے خطابات سے مشہور کر کے دنیا میں بدنام کیااور مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجا دی۔

کتاب کو ،سحر سے نوحہ گری رہی، یا اللہ لگا نہ ہو، دستاویزات رستا خیز، مہر سرِ محضر، جوع الارض جاہ، الامان الحفیظ، صفِ مشقِ ستم، اے روزگار کیوں تیری گردش نہ تھم گئی، سرجادہ گریہ۔ تہذیب نوی کا رگہ شیشی گراں ہے، فریب کاری شب، حال بد حال، پھر حشر کے سامان ہوئے ایوان ہوس میں، وہ کون تھے وہ کہاں گئے، منتظرِ تیغِ جفا اور خوالہ جات کے سولہ حصوں میں تقسیم کیا۔ لکھتے ہیں کہ ٢٥نومبر ١٤٩١ء کوقصرِ الحمرا میں آخری بار فجر کی اذان کے ساتھ ہی والیء غرناطہ امیر ابو عبداللہ ( باب دل) کے گھرانے کی خواتین وادی بشارہ کی طرف روانہ ہوئیں۔ وہ روتی جاتی تھیں۔سقوط کی صبح کو آو بکا شروع ہوئی تھی پانچ صدیوں سے زیادہ پر پھیل گئی۔ سالہا سال سے ہم نمناک دیکھتے ہیں صدی در صدی گریہ زار جیتے ہیں۔اردنگ واشنگٹن: ١٨٥٠ء سے ماخوذ عبار ت میں لکھتے ہیںکہ یہ سال اپنے جلو میں کون ہی خون، ذلت و ہزیمت، بے آبروئی اوے بے چارگی۔ تباہی و بر بادی اور آزمائشیں لے کر آیا۔ آمائش ایسی کہ ایمان جھوڑو تو جان امان پائو،زلت ایسی کہکہ راہ چلتے لوگ مسلمانوں کو عیسائی ہو جانے پر مبارک باد دیتے۔ بے آب روئی ایسی کہ زمین شق ہو کہ آسمان ٹوٹے، مسلمان عورتیں جو اپنے نامردوں سے بھی فاصلے اور بردے میں ریتی تھیں برہنہ سر و بے روا، ننگے پائوں اور نیم برہنہ اپنی شرم گاہوں پر ہاتھ رکھے غرناطہ کے گلی کوچوں میں پناہ کی تلاش میں بے سمت بھاگتی پھرتی تھیں اور ان کے پیچھے پیچھے مفہوش عیسائی لشکری اپنے گھوڑے دوڑاتے تھے جب وہ بھاگتی ہوئی ان سراسیمہ و بد نصیب عورتوں کے سروں پر پہنچ جاتے تو منہ بھر بھر کے ان پر شراب کی کلیاں کرنے لگتے۔

یہ امیر عبداللہ کی کم ہمتی کی دلیل تھی یا غیرت ایمانی کی کمی کا شاخسانہ کی غرناطہ اور اس کے قرب و جوار میں ٣٥ ہزار اسلامی سپاہ کی موجودگی کے باوجود وہ سقوط پر آمادہ ہو چکا تھا۔ لکھتے ہیں دو جنور ی کی سہ پہر اندلس کے مسلمانوں پر بہت بھاری تھی۔ یہ سقوط کی پہلی شام تھی۔ غرناطہ کی کشادہ مسجد میں ملکہ ازابیلا اوربادشاہ فرڈی نینڈ کے عیسائی لشکریوںاور گھوڑوں کے پیشاب سے متعفن ہو رہی تھی۔ ہر طرف مسلمانوں کی آہ نکا سنائی دیتی تھی یا شراب سے مدہوش، جشن فتح مناتے ہوئے عیسائی لشکریوں کے ہنکارے۔ غرناطہ میں جگہ جگہ آگ لگی تھی جس سے قرآن، نادر کتابیں اور نایاب قلمی نسخوں کی صورت میں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ علمی میراث کو نذر آتش کیا جا رہاتھا۔ ایک طرف غرناطہ کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ رہی تھی اور ان عزت،آبرو اور ناموس لٹ رہی تھی تو دوسری طرف غر ناطہ کے حکمران ابو عبداللہ نصر الحمراء میں اپنے امراء و حکام کے ساتھ سقوط کے معاہدے کے مطابق غرناطہ کی چابیاں ملکہ ازابیلا کو پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ کولمبس اپنے روزنا مچے لکھتا ہے کہ:۔”آج میں نے موجودہ سال (١٤٩٢)کی دو جنوری کو دیکھا کہ الحمراء کے مناروں پر ملکہ عالیہ ازابیلا کا شاہی نشان بزور قوت لہرا دیا گیا اور پھر مسلمان (مور) باشاہ ابو عبداللہ کو شہر کی فصیل کے دروازے پر ملکہ ازابیلا اور بادشاہ فر ڈی نینڈ کے ہاتھ چومتے ہوئے دیکھا”(کرسٹو فر کولمبس:١٤٩٢ئ)

٢
مصنف نے پرانے ریکارڈ سے ملکہ ازابیلا اور کولمبس کے درمیان معاہدے کو آشکار کیا جو(نئی دنیا) براعظم امریکا دریافت کرنے کے متعلق ہے جو١٧ اپریل ١٤٩٢ء میں ہوا۔ پھر چھ ماہ کے اندر اسی معاہدے کے بطن سے امریکہ نے جنم لیا۔ یوں ملکہ ازابیلا کی خون آشامی، اس کی سرشت میں رچی بسی ہوئی بے رحمی، اسلام دشمنی، سرمایاداری، انسانی خون کی منہ لگی لذت اور نسل کشی کا تجربہ جو اسے اندلس کے مسلمانوں کی نسل کشی سے حا صل ہوا تھا سپین سے امریکا پہنچ گیا۔امریکا کی نظریاتی اساس پاپائیت، یہودیت اورعیسائیت کے اس انتہا پسند اور دہشت گرد نظریے پر استوار ہوئی جسے ١٤٥٢ء میں ”عیسایت کا اصول دریافت” کے نام پوپ نکولس پنجم نے متعارف کر ایا تھا۔۔۔ ایک ایساظالمانہ نظریہ متعارف کرانے بنے جو اب تک کروڑوں کی جان لے چکااور ہنوز مستعمل ہے۔

پوپ نکولس نے پرتگال کے بادشاہ الفانسو کے نام ایک مذہبی حکم نامہ جاری کیا جس سے نظریہ دریافت کو متعارف کراتے ہوئے اس کی تشریع میں لکھا کہ نظریہ دریافت کے مطابق غیر عیسایوں کی زمینیوں پر قبضہ ، قتل عام، مکمل بربادی، انہیں غلام بنانا اور ان کے مال، ملکیت پر قبضہ کر لینے کا حکم دیا جاتاہے اور یہ عیسایت کے اصول اور حق دریافت کے مطابق ہے۔( پوپ نکولس پنجم: ١٤٥٢ئ)پھر جب کولمبس کو ملکہ ازابیلا نے نئی دنیا کی دریافت اور فتوحات پر روانہ کیا۔ جب کولمبس امریکا پہنچا تو اس کے پاس حق چرچ، پوپ، ملکہ ازابیلا اور بادشاہ کی طرف سے غیر عیسایوں کے قتل عام کا اجازت نامہ اور اس کی پشت پر اس قتل عام کا مذہبی اور نظریاتی جواز موجود تھا۔مشہور مورخ جان بائڈ تھیچر لکھتے ہیں :۔”سپین کی شاہی حکومت کے ہاتھوں امریکا کی دریافت اور ریڈ انڈینز کا قتل عام نظریہ دریافت کے تحت انجام پایا”'(جان نایڈ تھیچر: ١٩٠٣ئ)

کتاب”ہوئے تم دوست جس کے” میں عیسایت کے مسلمانوں اور دوسری قوموں پرظلم و سفاکیت کا اسناد کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ایسے ہی اندلس کو فتح کیا گیا۔ امریکا میں ریڈ انڈیں اور ہندوستان کی آبادی اس وقت تیس تیس لاکھ کی تھی۔ جو اس وقت امریکامیں ریڈ انڈین تیس لاکھ تھے جبکہ ہندوستان ایک ارب پچاس کروڑ ہیں۔ریڈ انڈین کی آبادی کو مولی گاجر کی طرح ظلم و ستم سے ختم کیا گیا۔اسی طرح اسپین میں میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی وہاں لاکھوں کے تعداد میں تھے مگر انہیں بھی قتل کیا۔ اب وہاں اسپین میں ایک بھی مسلمان موجود نہیں۔ قتل کر دیا گئے یا جبراً عیسائی بنایا گیا۔

عیسیائی مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند کہتے ہیں مگر اس کتاب میں جگہ جگہ عیسایوں کے دہشت گرد اور قاتل ہونے کی تاریخ دستاویزات موجود ہیں۔پندرویں صدی میں ہندوستان تجارت کرنے آئے اور مکر و فریب سے حکمران بن بیٹھے ۔ظلم و سفاکیت کی انتہا کی۔ عیسایوں کے سرغنہ اور نیو ورلڈ آڈر والے امریکا نے ساری دنیا میں ظلم و زیادتی کی۔ جاپان پر ایٹم بم گرایا۔ان ہی مکافات عمل کے تحت افغانستان میں ظلم کی داستان رقم کرنے کے بعد شکست سے ہمکنار ہوا۔ جن مسلمانوں کی مدد سے روس کی شکست کے بعد امریکا نیوورلڈ ورڈ آڈر حاصل کیا ۔انہیں ہی مسلمانوں امریکا سے نیوولڈ آڈر سے معزول بھی کر دیا۔اب دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی کا دور شروع ہوا ہے۔ بس مسلمان کو اب بیرونی نظریات کی طرف دیکھنے کی مسلمان بن جانا چاہیے۔ اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ غم نہ کرو خوف نہ کھائو تم ہی غالب ہو گے اگر تم مومن ہو۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان