برکس کانفرنس، تمام تر توجہ افغانستان کی صورتحال پر

Brasilien BRICS-Gipfel in Brasilia

Brasilien BRICS-Gipfel in Brasilia

نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں برکس گروپ میں شامل پانچ ممالک کا اجلاس جمعرات 9 ستمبر کو ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا کی نگاہیں افغانستان پر لگی ہوئی ہیں۔

بھارتی وزیراعظم مودی کی صدارت میں جمعرات کو دنیا کی پانچ بڑی اُبھرتی ہوئی اقتصادی قوتوں پر مشتمل گروپ برکس کے اجلاس میں چین، روس، جنوبی افریقہ اوربرازیل کے صدور بھی شرکت کررہے ہیں۔ یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہورہی ہے جب چین اور روس نے طالبان کی نئی عبوری حکومت اور انتظامیہ سے رابطے قائم کر لیے ہیں۔

برکس کی یہ تیرہویں چوٹی کانفرنس ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں اس مرتبہ یہ کانفرنس ورچوئل ہورہی ہے۔ اس میں چین کے صدر شی جن پنگ، روسی صدر ولادیمیر پوٹن، جنوبی افریقہ کے صدر سائرل رام فوسا اور برازیل کے صدر جابیر بولسونارو شرکت کررہے ہیں۔

نئی دہلی میں ایک سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ گو بھارت اور چین کے درمیان جاری سرحدی تنارعے پراس کانفرنس میں کوئی گفتگو نہیں ہوگی کیونکہ یہ ایک باہمی معاملہ ہے تاہم سکیورٹی امور سے متعلق موضوعات کے تحت اس پر گفتگو ہوسکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماسکو نہ صرف دونوں ملکوں کا پارٹنر ہے بلکہ وہ اس سرحدی تنازعے کو حل کرنے کے لیے کوشش بھی کرتا رہا ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے ایک بیان میں کہا کہ برکس ممالک 24 اگست کو اپنے قومی سلامتی مشیروں کی میٹنگ میں افغانستان کے معاملے پر پہلے ہی’کمیونیکیشن اور کوارڈی نیشن‘ قائم کرچکے ہیں۔ اس میٹنگ میں انہوں نے افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر کنٹرول کرنے کے بعد وہاں مختلف دہشت گرد گروپوں کی جانب سے دہشت گردانہ سرگرمیاں شروع کردینے پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے عملی تعاون بڑھانے کے لیے ایک لائحہ عمل اختیار کیا تھا۔

پانچ ملکوں کے اس گروپ کی چوٹی کانفرنس میں حالانکہ علاقائی معاملات اور کووڈ انیس کی وبا کے علاوہ موجودہ عالمی صورت حال پر بھی بات چیت ہوگی تاہم سب سے زیادہ توجہ افغانستان کی نئی صورت حال پر مرکوز رہے گی۔

یہ میٹنگ ایسے وقت میں ہورہی ہے جب بھارت نے افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کے قیام کے بعد اب تک باضابطہ کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ چین اور روس نے طالبان کی عبوری حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ وہ نہ صرف طالبان رہنماؤں سے بات چیت کررہے ہیں بلکہ انہوں نے کابل میں اپنے اپنے مشن بھی کھول رکھے ہیں جبکہ بھارت سمیت بیشتر ممالک نے سکیورٹی وجوہات کے سبب اپنے سفارت کاروں کو وہاں سے واپس بلالیا ہے۔

برکس کے رکن ممالک کے درمیان طالبان کے حوالے سے کئی طرح کے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ چین اور روس نے طالبان کے سلسلے میں نرم رویہ اپنا رکھا ہے جبکہ طالبان کی حکومت بھارت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ بھارتی رہنما اورسفارت کار اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل پر سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

نریندر مودی برِکس تنظیم کو توانا کرنے کی کوششوں میں

موجودہ صورت حال میں طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں برکس کے پانچوں رکن ممالک کے درمیان اتفاق رائے مشکل نظر آتا ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر سندیپ دکشت کا کہنا ہے کہ سکیورٹی امور پر برکس کے رکن ملکوں کے لیے کوئی متفقہ موقف اختیار کرنا بہت مشکل ہے۔

سندیپ دکشت نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ برکس ممالک صرف مالیاتی امور اورکووڈ انیس کی وبا کے تئیں ہی کوئی متفقہ موقف اختیار کریں۔

برکس کی اس میٹنگ میں شرکاء برکس ڈیولپمنٹ بینک، جسے اب نیو ڈیولپمنٹ بینک کہا جاتا ہے، کے ذریعہ افغانستان کی ترقی کے لیے طالبان کو مالی امداد فراہم کرنے پر بھی بات چیت کرسکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ روس اور چین برکس ڈیولپمنٹ بینک کے ذریعہ افغانستان کو مالی امداد دینے کی تائید کریں گے لیکن بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ اس پر راضی نہیں ہوں گے۔

گزشتہ برس مئی میں بھارت اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوول کنٹرول پر پیدا ہونے والے تنازعے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی اور صدرشی جن پنگ کے مابین براہ راست بات چیت ہوگی۔ اس سے پہلے نومبر میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے سے بات چیت کی تھی۔