برکینا فاسو: شدت پسندوں کے حملے میں پینتیس عام شہری ہلاک

Burkina Faso Military

Burkina Faso Military

برکینا فاسو (اصل میڈیا ڈیسک) مغربی افریقی ملک برکینا فاسو میں ایک فوجی اڈے پر مشتبہ شدت پسندوں کے حملے میں اکتیس خواتین سمیت 35 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکومت نے دو روز کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔

شدت پسندوں نے سوم صوبے کے شمالی اربندہ میں ایک فوجی اڈے اور شہری علاقے کو نشانہ بنایا تھا جسے فوج نے شدید لڑائی کے بعد ناکام بنا دیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس میں سات فوجی اور اسّی کے قریب شدت پسند بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ فوج کے ایک ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ ایک زوردار حملہ تھا جس پر قابو پانے میں کئی گھنٹے لگے۔ “شدت پسندوں کے ایک بڑے گروپ نے اربندہ میں فوجی اڈے اور شہری آبادی کو بیک وقت نشانہ بنایا۔‘‘

اس حملے سے متعلق ملک کے صدر روش مارک کریسچن کبورے نے اپنی ایک ٹویٹ میں فوج کی صلاحیت اور شجاعت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا،’’اس وحشیانہ حملے کے نتیجے میں 35 عام شہری ہلاک ہوئے جس میں سے بیشتر خواتین ہیں۔ صدرروک مارک کریسٹیاں کبورے نے ان ہلاکتوں کے لیے قومی سطح پر دو روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔

ابھی تک ان حملوں کی کسی بھی گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم حکومت اس طرح کے حملوں کے لیے شدت پسند تنظیم القائدہ اور اسلامک اسٹیٹ سے وابستہ شدت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہراتی رہی ہے۔ حکومت کے ایک ترجمان ریمس دنڈجینو نے خبر رساں ادارے اے ایف کو بتایا ’’دہشتگردوں نے اپنی لڑائی میں بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکتیس خواتین سمیت 35 عام شہریوں کا قتل کیا اور چھ افراد کو زخمی کر دیا۔‘‘

اسی ماہ کے اوائل میں ملک کے مشرقی علاقے میں ایک بندوق بردار کی چرچ میں فائرنگ سے کم از کم چودہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں پڑوسی ملک مالی میں اسلامی شدت پسند تنظیموں کی بغاوت کے بعد سے ہی نائجر اور برکینا فاسو میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ سن 2015 سے برکینا فاسو میں خاص طور پر شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اب تک ان حملوں میں سات سو سے زائد افراد ہلاک اور تقریبا ساڑھے پانچ لاکھ افراد زخمی ہوئے ہیں۔

24 دسمبر منگل کو ہونے والے اس حملے سے قبل فوج نے کہا تھا کہ نومبر سے اب تک اس نے ملکی سطح پر سو سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس برس خاص طور پر حملوں میں مزید شدت آئی ہے۔ گزشتہ ماہ کان کنی کرنے والی کینیڈا کی ایک کمپنی کے قافلے پر حملے میں کمپنی کے 37 ملازم ہلاک ہوگئے تھے.