اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی
موج کا منجدھار سے رشتہ ہے کیا
اتر چکے ہو سمندر میں حوصلہ رکھنا
جو رستہ چن لیا اس کو بدلنا کیوں نہیں آیا
زمیں مدار سے اپنے اگر نکل جائے
جو بھی ممکن تھا وہ زیرِ التوا رکھنا پڑا
رات بھر کوئی نہ دروازہ کھلا
دوستوں کے ہوبہو پیکر کا اندازہ لگا
مرے نصیب کا روشن ستارہ ملنے تک
موت جب آئی تو گھر میں جاگتا کوئی نہ تھا
دور دور تک کوئی جب نظر نہیں آتا
یہ زمیں ہم کو ملی بہتے ہوئے پانی کے ساتھ
جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا
ایک بیکار آنسو کی صورت گرے