ماں

ماں

میں ہوں اِک موج تُو کنارا ہے تیری قُربت ہی اب سہارا ہے یہ تیرے میرے بیچ کارشتہ ماں مجھے جان سے بھی پیارا ہے زندگی کی اداس راہوں میں میں نے اکثر تجھے پکارا ہے تیرے ہونٹوں کا لمس ماتھے پہ…

یادیں خوبصورت ہوتی ہیں

یادیں خوبصورت ہوتی ہیں

آئو کے دل کو کچھ بہلائیں ان وحشتوں سے کہیں دور لے جائیں چلو پرانے محلے کی سیر کر آئیں سلام کریں سب کو اور دیکھ دیکھ مسکرائیں جہاں گلی کے کونے پر یونہی گھنٹوں گزر جائیں نا کوئی موبائل کی گھنٹی…

برس رہی ہیں نشیمن پہ بجلیاں لوگو

برس رہی ہیں نشیمن پہ بجلیاں لوگو

اگرچہ چاہتے ہو تم بلندیاں لوگو ذرا حساب کرو اپنی پستیاں لوگو تمہاری بستی میں امن و اماں کی قلت ہو تم اپنے پاس رکھو اپنی بستیاں لوگو ذرا سا سوچ کو بدلو تو کامراں ہوں گے وگر نہ محنتیں ہوجائیں رائگاں…

وقت کیساتھ ساتھ مسکرانا بھول گیا ہوں

وقت کیساتھ ساتھ مسکرانا بھول گیا ہوں

وقت کیساتھ ساتھ مسکرانا بھول گیا ہوں شائد اس کو یاد جو آنا بھول گیا ہوں یہ بات بھی اسکو بتانا بھول گیا ہوں اب میں روٹھنا منانا بھول گیا ہوں زمانے بیت گئے ہوں خود سے ملاقات کئے بھیج کر کہیں…

ماں باپ کا کچا مکاں مسمار بہت ہے

ماں باپ کا کچا مکاں مسمار بہت ہے

ماں باپ کا کچا مکاں مسمار بہت ہے اس مٹی کی خوشبو سے مجھے پیار بہت ہے رہتے تھے بہن بھائی جو ماں باپ کے گھر میں اب کہتے ہیں ملنے کو تو تہوار بہت ہے ماں باپ بھی بٹ جاتے ہیں…

تو زر دار بہت ہے

تو زر دار بہت ہے

اس شہر میں ہر شخص ہی بیزار بہت ہے یہ مان لیا میں نے تو زر دار بہت ہے کیوں تم نے دکھایا تھا مجھے پیار کا رستہ یہ بھی بتا دیتے کہ یہ پر خار بہت ہے ہر راستہ ہو سہل…

میں پوچھ تو لوں پاؤں کی زنجیر سے پہلے

میں پوچھ تو لوں پاؤں کی زنجیر سے پہلے

روتا ہے قلم اب مرا تحریر سے پہلے لکھتا ہوں میں اب شام کو کشمیر سے پہلے کب تلک رکھے گی مجھے مجبور بنا کر میں پوچھ تو لوں پاؤں کی زنجیر سے پہلے کرتا نہ تمنا کبھی اس پیار کی ہرگز…

آٹے کی چیڑیا

آٹے کی چیڑیا

پھر زندگی میں بہت خسارہ ہوا اور سارے کا سارا ہمارا ہوا ماں منوں مٹی تلے سو گئی اور آٹے کی چڑیا بھی کھو گئی انور جمال فاروقی…

چھوڑ جائیں گے

چھوڑ جائیں گے

تیرے اس شہر کے موسم سہانے چھوڑ جائیں گے نجانے کس گھڑی گزرے زمانے چھوڑ جائیں گے طلب ہوگی نہ پھر تجھ کو کسی حرف و حکایت کی تیرے ہونٹوں پہ ہم ایسے فسانے چھوڑ جائیں گے عَلم لے کر بغاوت کے…

تمھاری آنکھوں میں کانٹے ہونگے

تمھاری آنکھوں میں کانٹے ہونگے

ایک راستہ سمجھ کر، میں یہ کیا کر رہا تھا دن رات مشقت کر رہا تھا بڑھ بڑھ کر کانٹے چن رہا تھا مگر یہ کیا کہ یہاں توکانٹوں سے اٹی انگنت راہیں ہیں اور ان پر لگی انگنت آنکھیں ہیں انگنت…

یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے

یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے

اے کاش کوئی آئینہ ایسا بنا سکے لوگوں کو ان کا چہرہ جو اصلی دکھا سکے جھلسا رہی ہے جو مرے پورے وجود کو یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے جس نے بھی ہاتھ تھاما کہیں اور لے چلا حسرت…

ہر آدمی کا جیسے خدا ہے علیحدہ

ہر آدمی کا جیسے خدا ہے علیحدہ

جو شخص زندگی سے ہوا ہے علیحدہ وہ مجھ کو مجھ سے کر کے گیا ہے علیحدہ سائے کو اپنے چھوڑ جیا ہے علیحدہ اپنی قبائے شوق سیا ہے علیحدہ دیکھا گیا نہ جس سے یہ نفرت بھرا جہاں اپنا ہی خون…

جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے

جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے

چھوڑ کر چل دیا بے سہارا مجھے دے گیا زندگی کا خسارہ مجھے شانوں پہ اس کے جب ہم نے سر رکھ دیا جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے خواب جو بھی تھے دیکھے تمہارے میں نے سب سے کرنا پڑا…

جا رہی ہے بہار آ جاؤ

جا رہی ہے بہار آ جاؤ

دل سے اٹھتا ہے اب غبار آ جاؤ جا رہی ہے بہار آ جاؤ بھول بیٹھا ہوں سارے غم اپنے لے کے تم اپنا جھوٹا پیار آ جاؤ دل کے اجڑے ہوئے چمن میں مرے پھر سے بن کے بہار آ جاؤ…

ذرا ماتم کیا جائے

ذرا ماتم کیا جائے

غمِ دنیا کے ماروں پر ذرا ماتم کیا جائے چلو ہم بے سہاروں پر ذرا ماتم کیا جائے جہاں ہرگام پہ مقتل سجے ہیں بے زبانی کے کبھی اُن رہگزاروں پر ذرا ماتم کیا جائے رہی ہر شاخ بے برگ و ثمر…

اچھا تمہارے شہر کا دستور ہو گیا

اچھا تمہارے شہر کا دستور ہو گیا

چھوڑا جو اس نے میں بڑا رنجور ہو گیا یہ غم ہماری جان کا ناسور ہو گیا آئے جو تیرے شہر میں طوفان آگیا موسم بھی تیرے شہر کا مغرور ہو گیا اس نے دیا جو زخم محبت کے نام پر وہ…

نزع کے عالم میں خواب

نزع کے عالم میں خواب

موت کی طرح ٹھنڈی رات خاموشی کی غضب ناک سرسراہٹ ایسی تاریکی جیسے اندھے کی آنکھ میرے پاؤں بھاگنے لگے بھاگتے بھاگتے ایک کھنڈر میں داخل ہوگۓ جہاں کھوپڑیوں اور ہڈیوں کے چیخنے کی آوازیں گونج رہی تھیں میری آہیں اور سانسیں…

ساون

ساون

یہ موقعے زندگی میں آتے ہیں بہت کم رونے دو یہ ضبط کا نہیں ہے موسم نیل احمد…

میرا کیا ہو گا

میرا کیا ہو گا

میں نے مجھے تیرے لیے گروی رکھا تو مجھے چھوڑ گیا تو میرا کیا ہو گا نیل احمد…

میں

میں

میری نظمیں مجھے تخلیق کرتی ہیں میں خود کو مکمل کرنے کے لیے لکھتی ہوں نیل احمد…

ویران اندر سے کر رہا ہے کوئی

ویران اندر سے کر رہا ہے کوئی

ویران اندر سے کر رہا ہے کوئی مجھ سا مجھ میں اتر رہا ہے کوئی وقت سا تحلیل ہوا چاہتا ہے خاموش جان سے گزر رہا ہے کوئی ساتھ چلنے کا وعدہ تو کر لیا تھا سفر طویل دیکھ کر مکر رہا…

محبت اک عبادت ہے

محبت اک عبادت ہے

محبت اک عبادت ہے عبادت میں تصنع سے خدا بھی روٹھ جاتا ہے نمائش اور دکھاوے سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے محبت اور عبادت میں نمائش ہو نہیں سکتی محبت اک عبادت ہے عبادت کے لیے بہتر ہے تنہائی کا عالم ہو…

میں سرِ دار بھی ہوں کتنی بلندی پہ یہ دیکھ

میں سرِ دار بھی ہوں کتنی بلندی پہ یہ دیکھ

میں سرِ دار بھی ہوں کتنی بلندی پہ یہ دیکھ جب بھی دیکھا ہے وہی گھور اندھیرا نکلا جانے کس سمت محبت کا ستارا نکلا ہم کو جس عہد میں جینا تھا بغاوت کے لئے اُس میں ہر شخص روایات کا شیدا…

سانسوں کو تیرے نام کی گردان کیا جائے

سانسوں کو تیرے نام کی گردان کیا جائے

سانسوں کو تیرے نام کی گردان کیا جائے چپکے سے کسی روز تو مہمان کیا جائے آجا کہ کبھی پورا یہ ارمان کیا جائے اِک شام تیرے وصل کی دنیا سے چُرا کر یادوں کی گزرگاہوں کو آسان کیا جائے ہونٹوں پہ…