اِس درجہ پُریقین تھے وہم و گمان میں
موسمِ گُل کی حقیقت کا پتا دیتی ہے
میں تیرے شہر کی بنیاد ہلا سکتا ہوں
کوئی پتھر بھی میرا پیار سمجھ سکتا ہے
رنج و اُلفت کی راجدھانی پر
سفر دشوار ہونا ہے
غزل
سائباں نہیں کوئی
دشمن یہ زمانہ
شیشے کے مکانات
دل لگی تم سے
پھر پلٹ کر نہ آنے والے ہیں
میں اگر جیت جائوں تیری ہار ہے
تمہارے ہجر میں
کوئی طبیب ہم سے بلایا نہ جائے گا
غالب کا ہم دیوان لیتے ہیں
نیا اور کوئی
میرے سارے سوال باقی ہیں
ضرورت کیا ہے
آئے ہمیں نہ اشکوں کو نایاب دیکھنا
عشق
آنکھوں سے دریا بہا دوں گا
حسینؓ ابن علی