چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری آج ہو گی

Sadiq Sanjrani

Sadiq Sanjrani

اسلام آباد (جیوڈیسک) سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کو عہدے سے ہٹانے کی قراردادوں پر رائے شماری آج ہو گی۔

حزب اختلاف کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاچکی ہے جس کے جواب میں حکومت اور ان کے اتحادیوں نے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور ان کیخلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔

اپوزیشن سمجھتی ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ایوان کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں جبکہ حکومت کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا پر اعتماد نہیں رہا۔

دوپہر دو بجے شروع ہونے والے اجلاس میں سینیٹ (ایوان بالا) میں اعتماد کی بڑی جنگ آج ہوگی جس میں حکومت اور اپوزیشن کا نمبرز گیم کی بنیاد پر ٹکراؤ ہوگا لیکن اس جنگ سے قبل ہی سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے اور دونوں جانب سے عددی اکثریت کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔

اس سیاسی گرما گرمی میں دونوں جانب سے عددی اکثریت ظاہر کرنے کے لیے سینیٹ ارکان کی میٹنگز، کارنر میٹنگز، ناشتے، ظہرانے اور عشائیے رکھے جارہے ہیں۔

اپوزیشن نے صادق سنجرانی کی جگہ میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور اپوزیشن کے چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد امیدوار میر حاصل بزنجو نے صادق سنجرانی کو ایک بار پھر استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا ہے جبکہ سینیٹ میں قائدِ ایوان شبلی فراز نے صاف انکار کرتے ہوئے آخری لمحے تک لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز و دیگر چیئرمین سینیٹ کے امیدوار حاصل بزنجو کی جانب سے سینیٹرز کے اعزاز میں دیے جانے والے عشائیے میں شریک ہیں —فوٹو: آئی این پی
شبلی فراز کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے خلاف اپوزیشن کے اقدام پر خود اپوزیشن کی اکثریت ناخوش ہے اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو شکست ہوگی۔

تحریک انصاف کے ہی سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی نام نہاد جمہوری سوچ اور جمہوری اخلاقیات ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں جبکہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کے مطابق سینیٹ میں ہونے والی رائے شماری میں کامیابی صادق سنجرانی کی ہوگی، یہ سیاسی ٹارزن بننےکی کوشش کر رہے ہیں لیکن مارےجائیں گے۔

ایوان کی پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو اپوزیشن بینچوں پر 67 ارکان براجمان ہیں تاہم جماعت اسلامی کے 2 ارکان ہیں جنہوں نے ووٹنگ میں شریک نہ ہونے کا اعلان کررکھا ہے۔

اس طرح اپوزیشن کے پاس 103 کے ایوان میں سے 65 ووٹ ہیں جن میں سے مسلم لیگ (ن) کے 30، پیپلز پارٹی کے 21، نیشنل پارٹی کے 5، پختوانخوا ملی عوامی پارٹی کے 4، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 4 اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک سینیٹر ہے۔

اس وقت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر ملک سے باہر ہیں جس کے بعد اپوزیشن کو توقع ہے کہ ن لیگ کے 64 ارکان چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیں گے۔

دوسری جانب حکومتی بینچز پر 36 سینیٹرز موجود ہیں جن میں سے پاکستان تحریک انصاف کے 14، سینیٹر صادق سنجرانی سمیت بلوچستان عوامی پارٹی کے 8، سابقہ فاٹا کے 7، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 5، مسلم لیگ فنکشنل اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا ایک ایک سینیٹر ہے۔

صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے سے ہٹانے کیلئے اپوزیشن کو 53 ووٹ درکار ہیں جبکہ اسی طرح ڈپٹی چیئرمین کو ہٹانے کیلئے بھی حکومت کو 53 ووٹوں کی ضرورت ہے۔

ایوان بالا میں اپوزیشن کو اکثریت حاصل ہے لیکن ایوان میں کس کاَکس کو کس پر کتنا اعتماد ہے، اس فیصلے کیلئے سینیٹ سیکریٹریٹ نے تیاری مکمل کرلی ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بلائے گئے ایوان بالا کے اس خصوصی اجلاس کی صدارت بیرسٹر سیف علی کریں گے اور وہ پریزائیڈنگ افسر کے بھی فرائض سرانجام دیں گے۔

چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی تحریک پیش ہونے پر 26 ارکان کو اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر حمایت میں ووٹ دینا ہوگا۔

چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کی قرارداد پر ووٹنگ کیلئے بیلٹ پیپرز میں 2 خانے ہوں گے جس میں سے پہلے خانے میں’کیاآپ قرارداد کےحق میں ہیں ؟‘ درج ہوگا جبکہ دوسرے خانے میں کیا آپ قرارداد کے مخالف ہیں؟ درج ہوگا۔

قرارداد کے محرک 15 منٹ تک بحث کر سکیں گے جبکہ چیئرمین سینیٹ کو 30 منٹ تک بولنے کی اجازت ہوگی۔

اس کے بعد خفیہ رائے شماری کے ذریعے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی قرارداد پر ووٹنگ ہوگی، اگر قرارداد کے حق میں 53 یا زیادہ ووٹ آئے تو چیئرمین سینٹ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا بصورت دیگر چیئرمین سینیٹ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے ۔

ڈپٹی چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کی تحریک پیش ہونے کے بعد یہی تمام عمل دہرایا جائے گا۔

چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین کی نشستیں خالی ہونے کی صورت میں 7 روز میں نئے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔