خیرات دینے والوں کی شامت

Charity

Charity

تحریر : ممتاز ملک.پیرس

کسی بھی ملک میں جب بھی کوئی آفت نازل ہوتی ہے تو وہ ان لوگوں کے لیئے تو آزمائش ہوتی ہی ہے جو لوگ اس آفت میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن اس سے بڑھ کر یہ آزمائش ان لوگوں کے لیئے اور بھی بڑی ہو جاتی ہے جب آپ کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہو اور آپ اس آفت سے بھی محفوظ ہوں ۔ اللہ پاک نے جہاں اولاد کو آزمائش بنا کر انسان کی زندگی کا حصہ بنایا ہے تو وہیں اس کے مال کو بھی اس کے لیئے سب سے بڑی آزمائش قرار دیا ہے ۔ ساری کائناتوں کا خالق ، کیا اپنی جناب سے کسی کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا تھا ؟

جس نے آپ کو دیا وہ آپ کے سامنے سائل بنا کر کھڑے انسان کو نہیں نواز سکتا تھا ؟

کیوں نہیں ۔ لیکن رزق تو اللہ پاک نے انسان کی پیدائش سے سالوں قبل اسکے نصیب میں لکھ چھوڑا تھا ۔ جب اس نے اس مانگنے والے یا محتاج کے نصیب ہی میں رزق نہیں لکھا تو میں اپنے مال میں سے اسے کیوں دوں ؟

درست فرمایا ، نصیب تو واقعی لکھا جا چکا تھا ۔ اس کے نصیب میں آسائشیں بھی لکھی جا چکی ہیں اور آزمائشیں بھی ۔ اس کے نصیب کی آزمائش یہ ہے کہ اسے آپ کے سامنے مجبور نگاہیں اور پھیلائے ہوئے دامن کیساتھ کھڑا ہونا پڑا اور آپ کی آزمائش یہ ہے کہ آپ اللہ کے عطا کیئے ہوئے مال و دولت میں سے اللہ کی مخلوق کے لیئے کتنا حصہ نکالتے ہیں ؟ وہ چاہتا تو اس مانگنے والے کی جگہ آپکو بھی کھڑا کر سکتا تھا اور دینے والے کی جگہ وہ محتاج کھڑا ہوتا ۔ لیکن جوابدہی کے امتحان میں آج آپ کھڑے ہیں کہ آپ ان سائلین کے لیئے کیا کرتے ہیں ؟

لیکن اس کے ساتھ ہمارا ایک قومی المیہ بھی تو ہے کہ

دنیا بھر میں خیرات اور امداد کی رقوم ہر طرح کے ٹیکسز سے مبرا ہوتی ہیں اور ان آفات کے زمانوں میں اسی امداد کے بہانے بہت سا کالا دھن عوام کی خدمت کے لیئے حکومتوں کو مددگار مل جاتا ہے ۔ جبکہ پاکستان میں یہ حال ہے کہ زرا کسی کی مدد کے لیئے کچھ دیکر دیکھیں حکومت اور نیب کے نام پر بنے چودھری ان کی بوسونگھتے سونگھتے اس کی سات پشتوں کی کھال ادھیڑ دینگے اور انہیں اس بات پر نشان عبرت بنا دیا جائیگا کہ بھائی تیری ہمت کیسے ہوئی کہ تو کسی کی مدد کرتا ۔ اس زمانے کی رسیدیں طلب کی جائیں گی جس زمانے میں ہمارے ہاں پیدائش کا سرٹیفکیٹ بنانا بھی لازمی نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ اور پھر ہم کہاں کہاں سے ثبوت اکٹھے کرتے پھریں کہ جناب یہ مال میری محنت کا ہے یا جائز ہے ۔ زرا ماضی پر نظر ڈال کر دیکھیں حکومت چاہے کسی کی بھی رہی ہو لیکن ٹیکس پالیسیز اور اپنی دولت کو مکمل طور پر ظاہر کرنیوالے کے لیئے قوانین اس قدر مضحکہ خیز اور ہتھک آمیز ہیں کہ آپ چاہتے ہوئے بھی اپنا حق حلال کا مال بھی پورے کا پورا ظاہر نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں حکومت وقت آپ کو کشکول پکڑا کر سڑک پر کھڑا کر دیگی کہ بس یہ ہے اس کا انعام ۔ان ٹیکسز اور ڈیکلریشن کے بدلے اسے کونسی سہولیات ملتی ہیں ؟ کیا کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں کم از کم ہماری نظر سے تو ابھی تک اہسا کوئی خوشنصیب نہیں گزرا ۔ ہم نے تو ایسا ایماندار بیچارہ بھی دیکھا ہے جس نے اپنی ہر چیز پچھلے سال ڈکلیئر کروائی ، پانچ لاکھ روپے کا سالانہ انکم ٹیکس پوری ایمانداری سے ادا کیا ۔ چند ہی ماہ میں اس کے کام کے حالات اچھے نہ رہے تو اپنے بچے کی بیماری پر سرکاری ہسپتال میں گیا تو اس بچے کو ایک ڈسپرین کو گولی تک فری میں دینے سے انکار کردیا گیا یہ کہہ کر کر کہ جناب آپ تو ٹیکس پیئر ہیں آپ کو کوئی دوا اور سروس فری میں نہیں دی جا سکتی ۔ اب بیچارہ پچھلے سال کے ٹیکس کی ادائیگی کا جرمانہ تل تل کر مقروض ہو ہو کر بھر رہا ہے ۔ اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اسے کس پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ وہ پانچ لاکھ روپے کی رقم ڈکلیئر ادا کر آیا ۔ اس کے بدلے اس پر ہر آسانی کے دروازے بند ہو گئے کیونکہ اسے ٹیکس پیئر کا نمبر جاری نہیں ہوا بلکہ شاید مجرم نمبر جاری ہو چکا ہے ۔

یہ ہی حال کسی بھی شخص کے کہیں پر خیرات کرنے کی صورت میں اسے نشان عبرت بنانے کا بھی ہے ۔ جس قوم میں زلزلہ زدگان اور سیلابی متاثرین کے لیئے آئے ہوئے خیراتی کمبل اور اشیاء تک سوٹوں والوں اور بوٹوں والوں کے گھروں سے برامد ہوتے ہوں، جہاں ہر صاحب اختیار یتیموں اور بیواوں کا مال کھانے کے لیئے اپنی ہی بیویوں اور بچوں کو یتیم اور بیوہ لکھوا کر کھانے کا رواج ہو ، جہاں بیت المال اور اوقاف کے مال پر دین فروشوں کی بدبخت اولادیں عیش کرتی ہوں ، دور نہ جائیں

ابھی تازہ واردات زیادہ پرانی بات تو نہیں جب اربوں روپے قوم سے ڈیم کے نام پر اکٹھے کرنے والوں نے اسے مال مفت دل بیرحم کی طرح اڑایا ہو ، وہاں آج اگر خدا کا عذاب نہیں آئیگا تو کیا ہو گا ۔ دنیا بھر میں یہ آزمائش ہے لیکن پاکستانیوں پر یہ واقعی خدا کا عذاب ہے ان کے اعمال کے سبب۔ اور یہ بھی دیکھ لیجیئے گا کہ جس قوم کی اشرافیہ کروڑوں کے گھر میں رہ کر چھ چھ ماسیاں اور ملازم رکھتی ہے لیکن آفت کے دنوں میں انہیں نوکریوں سے نکال کر بیروزگار کر کے سڑک پر بھیک مانگنے پر مجبور کرتی ہے اسی لعنتی اشرافیہ کے لیئے یہ خیراتی وینٹیلیٹرز بھی استعمال کیئے جائینگے ۔ عام آدمی کو مرتے مر جائے لیکن اسے ان وینٹیلیٹرز کی سہولت کبھی نہیں پہنچائی جائیگی ۔ بالکل اسی طرح جس طرح پچھلی امداد میں ملے ٹیسٹ مشینز کو چغتائی لیب جیسی جگہوں پر نوٹ چھاپنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے ۔آج عوام سے پھر سے بھیک مانگنے والوں سے پوچھا جائے کہ پچھلا مال کدھر ہے ؟

پچھلی اپوزیشن کے ایک عالمی غبارہ لیڈر نے سچ ہی تو کہا تھا کہ جب قوم پر بے اندازہ ٹیکس لگیں ، ملک میں مہنگائی ہو ، عام آدمی کی زندگی عذاب بن جائے تو سمجھ لو کہ حکمران چور ہے ۔۔۔۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک.پیرس