بچوں کی تربیت کیسے کریں

Children Training

Children Training

تحریر : نبیلہ شہزاد

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ بچے ہی بڑے ہو کر ملک و قوم کی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ جس طرح اگر کسی عمارت کی بنیاد مضبوط اور پائیدار ہو تو وہ ہر قسم کے تغیرات کو برداشت کرنے کے بعد اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے۔ بالکل اسی طرح اگر بچوں کی تربیت بھی بہترین خطوط پر کی جائے تو وہ مضبوط کردار کے مالک بنیں گے۔ پھر زمانے کے طاغوتی تغیرات ان کے اخلاق و ایمان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے۔بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا دل و دماغ بالکل سادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ماہرین نے تربیت کی بہترین عمر بچپن کو ہی قرار دیا ہے۔بچوں کی تربیت کی ذمے داری والدین، معلم اور معاشرہ ہوتے ہیں۔

والدین کا کردار بچوں کی تربیت میں سب سے پہلا، بنیادی اور اہم ترین عنصر ہے۔والدین ہی بچے کی پہلی درسگاہ ہوتے ہیں۔ بزرگوں کا فرمانا ہے کہ بچہ سات سال تک ماں باپ کا غلام ہوتا ہے۔ وہ وہی سیکھتا ہے جو اس کے والدین اسے سکھانا چاہتے ہیں۔ سات سے چودہ سال کی عمر میں ان کا مشیر بن جاتا ہے یعنی وہ ان سے سیکھتا بھی ہے اور وقتاً فوقتاً انہیں اپنی رائے بھی دیتا ہے۔ پھر چودہ سال کی عمر کے بعد تربیت کا ثمر سامنے آتا ہے۔ کہ اچھی تربیت ہوئی ہے یا بری؟ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ والدین کس ڈھنگ پر بچوں کی تربیت کریں؟ تو اس کا جواب ہمیں اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں ملتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے بچوں کو تین چیزیں سکھاو ¿۔ اللہ تعالی سے محبت، 2 حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، 3 قرآن سے محبت،

بچوں کے دلوں میں ان چیزوں کی محبت ڈالنے کا سب سے بہترین وقت ان کا بچپن ہی ہے۔ جب ان کے دلوں میں اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی محبت ہو گئی تو وہ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی لازمی کوشش بھی کریں گے۔یہی محبت ہی انہیں دن بدن سنوارے گی اور وہ دنیا و آخرت میں کامیابیاں و کامرانیاں پائیں گے۔کئی بچوں کو والدین سے سوالات کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ان کی یہ عادت فضول گوئی سمجھ کر انہیں چپ نہ کروائیں بلکہ ممکنہ تسلی بخش جواب دیں۔اگر آپ اس وقت بہت مصروف ہیں تو وقتی طور پر معذرت کرلیں لیکن بعد میں ان کی طرف ضرور رجوع کریں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ سوالات کرنے والے بچے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا بچہ پڑھائی میں کند ذہن ہے تو پریشان مت ہوں۔

یہ قانون فطرت ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں میں مختلف صلاحیتیں تقسیم کر رکھی ہیں۔ اگر کسی کو لکھنے کی صلاحیت دی ہے تو دوسرے کو بولنے کی دی ہوگی۔اگر ایک بچہ پڑھنے میں کندذہن ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ پریکٹیکل میں تیز ہو۔ والدین کو ماہر نفسیات کی ذمہ داری بھی ادا کرنا ہو گی۔ ان کی نفسیات ورجحانات کو سمجھنا ہو گا پھر اس کے مطابق ان سے کام لینا ہوگا۔ کند ذہن بچوں کی صلاحیتیں بھی وقت کے ساتھ کھل سکتی ہیں۔ اگر وہ ایک شعبہ زندگی میں کامیاب نہیں ہوئے تو دوسرے میں کامیاب ترین ہو سکتے ہیں۔ انہیں بچپن سے ہی نماز کا پابند بنا دیں۔ رشتہ داروں سے محبت کرنا سکھائیے۔ انہیں کم عمری سے ہی تعزیت، تیمار داری، برداشت، انکساری، تواضع اور تحمل سکھائیں۔ کیونکہ آج کا سیکھا وہ کل کو آپ پر بھی آزمائیں گے۔ انہیں حلال و حرام کی تمیز سکھائیں۔ جب بچے13یا 14 سال کی عمر میں داخل ہو جائیں تو والدین انہیں سورہ احزاب، سورہ یوسف، سورہ نور کی تفسیر اچھی طرح سے سمجھا دیں تاکہ انہیں معاشرتی قوائد کے ساتھ ساتھ اپنی عفت و پاکدامنی اور زبان کی حفاظت کرنا، سمجھ میں آ جائے۔

بچوں کی تربیت میں دوسرا اہم ترین کردار معلم کا ہوتا ہے۔بچے والدین کی گود سے نکل کر معلم کے پاس جاتے ہیں۔وہ صرف صرف معلم کی تعلیم سے ہی نہیں بلکہ اس کے ذاتی کردار سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ہماری اسلامی تعلیم میں معلم کو ماں یا باپ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اسے جتنا بڑا درجہ دیا گیا ہے اس پر تربیت کی ذمہ داری بھی اتنی ہی بڑی عائد ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ استاد اور شاگرد کا مقدس رشتہ اور آپس میں ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا احساس آہستہ آہستہ مادیت کی چکاچوند میں ماند پڑ رہا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ باہمی محبت و احترام کا تعلق کمزور ہو رہا ہے۔ استاد باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ تو جہاں ایک طرف شاگرد کو اس کا ادب و احترام، عزت و محبت کی تلقین کی گئی ہے تو وہاں استاد کو بھی باپ والی شفقت و احساس رکھنے کی تاکید ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللّہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔” اگر میرے شاگردوں پر مکھی بھی بیٹھ جائے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ امام شافعی کی زمانہ طالب علمی میں مالی حالت کمزور تھی۔جب حصول علم کے لئے مدینہ تشریف لائے تو رہائش و طعام کا مسئلہ تھا۔تو ان کے استاد محترم امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے یہ سارا عرصہ انہیں اپنا مہمان بنائے رکھا۔ جب مدینہ میں علمی سفر مکمل کر کے حصول علم کے لئے کوفہ تشریف لائے تو وہاں استاد امام محمد رحمہ اللہ علیہ نے ان کی کفالت کی۔ اگر یہ دونوں عظیم و محترم استاد امام شافعی رحمہ اللّٰہ علیہ کی سرپرستی نہ کرتے تو عالم اسلام کو اتنا عظیم المرتبہ امام، امام شافعی کیسے میسر آتا۔؟اسی طرح امام یوسف کے والد دھوبی تھے۔ وہ غریب تھے اور چاہتے تھے کہ امام یوسف تعلیم حاصل کرنے کی بجائے ان کے کام میں معاونت کرے۔ لیکن امام ابوحنیفہ جو ان کے استاد تھے۔ انہوں نے ان کے تمام اخراجات برداشت کیے۔ مالی معاونت کی تاکہ ذہین یوسف صرف یک سو ہو کر علم حاصل کرے۔ اور پھر گذرتے وقت نے دکھایا کہ یہی لائق و فائق بچہ مسلمانوں کا امام بنا۔

Children

Children

بچوں کی تربیت میں تیسرا اہم عنصر معاشرہ ہے۔ معاشرے میں بنیادی رکن والدین اور پھر قریبی عزیزواقارب آ جاتے ہیں۔ ایک بچہ تربیتی لحاظ سے صرف اپنے والدین کی ذمہ داری نہیں بلکہ تربیت کا یہ پروسیجر والدین، استاد، رشتہ داروں سے ہوتا ہوا آس پڑوس، گلی محلے کے تمام لوگوں پر کسی نہ کسی صورت میں یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بچوں کے اخلاقیات میں بگاڑ تب سے زیادہ آیا ہے۔ جب ہم نے دوسروں سے اپنے بچے کی تربیت کا حق چھین لیا ہے۔ یا پھر اپنے بچوں کو ہی صرف اپنا سمجھا ہے اور دوسروں کے بچوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں ہیں یہ سوچ کر کہ ہمیں کیا ضرورت ہے کسی کے معاملے میں دخل اندازی کرنے کی، یا پھر یہ سوچ کہ میرا بچہ جو مرضی کریں کسی کو اس سے کیا؟۔ یاد رکھیں جب بگاڑ کی وبا پھیلتی ہے تو یہ اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جب ماحول تعفن زدہ ہو گا تو پھر ہمیں اس تعفن سےاپنے بچے کو بچانا مشکل ترین ہو جائے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ صرف اپنے گھر کی طرف نہیں بلکہ اردگرد کے بچوں پر بھی توجہ دیں۔ اپنے گلی محلے کا ماحول ویسا بنانے کی کوشش کریں جیسا ہم اپنے بچے کے لیے پسند کرتے ہیں۔ ہم نے روز قیامت صرف اپنے بچے کے بارے میں حساب نہیں دینا بلکہ ارد گرد کے لوگوں کی تربیت کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔بچے ہمارے اپنے ہیں یا دوسروں کے، سب ہمارا مستقبل ہیں۔ آئیے عہد کریں کہ ہم بچوں پر توجہ دے کر اپنا مستقبل روشن، مستحکم، محفوظ و مامون بنا لیں۔

تحریر : نبیلہ شہزاد