چین کے ساتھ مسابقت اب نظریات کا ٹکراؤ ہے، امریکی خفیہ ادارے

USA-China-Handelskrieg

USA-China-Handelskrieg

واشنگٹن (جیوڈیسک) چین اس وقت عالمی منظر پر امریکا کے نظریاتی حریف کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ بات امریکی خفیہ ادارے کی عالمی خطرات کے جائزے پر مبنی رپورٹ میں بیان کی گئی ہے۔

امریکا کے ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس ڈان کوٹس نے اس خصوصی جائزہ رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ امریکا کو سپر پاور کی مسابقت میں اب چین کی نظریاتی جنگ کا بھی سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین عالمی سطح پر ’آمرانہ سرمایہ داری‘ کو مقبول کرانے کی کوشش میں مصروف ہے اور یہ مغرب کی آزاد جمہوریت کے منافی ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹوں پر مبنی اس جائزے سے چین مخالف امریکی موقف میں شدت پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔ جائزہ رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت مختلف ممالک میں چین آمرانہ سوچ کی سرمایہ دارانہ فکر کو ایک متبادل نظام کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش میں ہے۔ اس کے لیے وہ مختلف ممالک میں ترقیاتی راستے بنانے کے ساتھ ساتھ اقتدار کی رسہ کشی میں شدت لا کر جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی جیسے بین الاقوامی امور کی حمایت میں کمی لانے کی کوشش میں ہے۔

چین کے ساتھ کاروبار کے لیے مشاورت دینے والی ایک بین الاقوامی کمپنی APCO کے چیئرمین جیمز میکگریگر اِس نئی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین کے ساتھ معاملات طے کرنا محض اقتصادی معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک نظریاتی جنگ قرار دی جا سکتی ہے اور ابھی تک چین بظاہر کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ میکگریگر کا یہ بھی کہنا ہے کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک چین کے تعاون کے منتظر ہیں اور کئی ایک ملکوں کی اقتصادی ترقی میں چین کا کردار دکھائی بھی دیتا ہے۔

پرنسٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے چینی امور کے ماہر پروفیسر ایرن فریڈبرگ نے امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پالیسی میں تبدیلی اہم ہے لیکن یہ حیران کن نہیں قرار دی جا سکتی اور ویسے بھی چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے ملک کی قدیمی خارجہ پالیسی کو غیر نظریاتی خارجہ پالیسی کے طور پر متعارف کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ فریڈبرگ کے مطابق پہلی مرتبہ چینی حکومتی اہلکار کہتے پھرتے ہیں کہ وہ کوئی متبادل معاشرتی ماڈل پیش کرنا نہیں چاہتے۔

سن دو ہزار سولہ میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے فوراﹰ بعد ہی ٹرمپ نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا،’’ مجھے چین سے محبت ہے۔‘‘ لیکن جہاں تک بیجنگ حکومت سے متعلق اُن کے تبصروں کا تعلق ہے تو وہ کبھی مثبت نہیں رہے۔

ایرن فریڈ برگ نے مزید واضح کیا کہ سن 1950 اور 1960 کی دہائی میں مارکس اور لینن کے نظریات کا پرچار کرنے والے ماؤ زے تنگ کی فکر کے ساتھ شی جن پنگ مطابقت نہیں رکھتے۔ شی جن پنگ حکومت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ جہاں مضبوط قدم نہیں جمائے ہوئے، وہاں وہ جمہوری اداروں کو کمزور کا کردار ادا کر رہی ہے، اس میں وسطی یورپ اور بعض افریقی ممالک شامل کیے جا سکتے ہیں۔ فریڈ برگ کا خیال ہے کہ افریقہ میں آمریت کے حامل ممالک کو بیجنگ حکومت فوقیت دیتی ہے اور اس باعث وہاں آزاد سیاست کے امکانات محدود ہوتے جا رہے ہیں۔