چین ہانگ کانگ میں کیا کرنے کو ہے؟

 China, Hong Kong

China, Hong Kong

بیجنگ (جیوڈیسک) اگر چین ہانگ کانگ میں پیش قدمی کرتا ہے، تو اس سے دنیا کے اس اہم مالیاتی مرکز کا کاروبار برباد ہو سکتا ہے اور لوگوں کو حاصل بنیادی آزادیاں ہمشہ کے لیے متاثر ہو سکتی ہیں۔

پچھلے چند روز کے دوران چین میں انٹرنیٹ پر پھیلنے والی بعض ویڈیوز سے لگتا ہے کہ چین ہانگ کانگ کے قریب سرحدی شہر شین زین میں سکیورٹی اہلکاروں کی نقل و حرکت بڑھا رہا ہے۔ ویڈیوز سے واضح ہے کہ یہ چین کی مسلح پولیس فورس کے دستے ہیں، جنہیں بکتر بند گاڑیوں میں بظاہر ہانگ کانگ کے قریب تعینات کیا جا رہا ہے۔اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ دکھانا ہے کہ وہ اپنے خصوصی انتظامی علاقے ہانگ کانگ کے سامنے کتنا طاقتور ہے۔ سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت سے چین کھل کر یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ ہانگ کانگ میں دس ہفتوں سے جاری مظاہروں کو طاقت کے زور پرکچلنے کے لیے بھی تیار ہے۔

دراصل آمریت کا اہم اصول خوف قائم کرنا ہوتا ہے۔ جو حکمران خود عوام کی طاقت سے خوف زدہ ہوتے ہیں، وہ لوگوں میں ریاست کا خوف ڈالتے ہیں۔ چین اس طرح کا نظام چلانے میں خاصی مہارت رکھتا ہے۔

حکومت کے پاس اپنے شہریوں کو یہ باور کرانے کے کئی طریقے ہیں کہ وہ زور زبردستی کرنے سے نہیں ہچکچائے گی۔ یعنی آپ کی کمپنی کے باس کو خفیہ اہلکاروں کی طرف سے دھمکی آمیز فون آ سکتا ہے، آپ کے ملک سے باہر جانے پر پابندی لگ سکتی ہے، آپ کو اٹھا بھی لیا جا سکتا ہے اور تشدد بھی کیا جا سکتا ہے۔

لیکن چینی حکمرانوں کو شاید نظر آرہا ہے کہ ہانگ کانگ کے نوجوان مظاہرین پر ان تمام حربوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا۔ نہ پولیس تشدد اور نہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں انہیں روکنے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ حتیٰ کہ مبینہ ‘فساد‘ کے مرتکب افراد کے لیے مقرر کردہ دس سال تک قید کی سزا کا بھی مظاہرین پر بظاہر کوئی فرق نہیں پڑا۔

یہ حالات چین کے حکمرانوں کے لیے ضرور باعث تشویش ہوں گے۔ لیکن بیجنگ حکومت بھی خالی دھمکیوں پر یقین نہیں رکھتی۔ آخر تیس برس پہلے بھی جب تیانانمن اسکوائر میں مظاہرے رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے، تو اُس وقت کی کمیونسٹ قیادت نے انہیں کچلنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی۔ بیجنگ کی روش یہی بتاتی ہے کہ جب بھی اسے اقتدار پر اپنی گرفت کمزور پڑنے کا خطرہ محسوس ہوتا ہے، تو حکام شہریوں پر گولیاں چلانے سے دریخ نہیں کرتے۔

ہانگ کانگ کے مظاہرین ان خطرات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ ایسی کسی خام خیالی کا شکار نہیں کہ ان کے مظاہروں سے کوئی بہت بڑی تبدیلی آ جائے گی۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین کے تسلط کے خلاف اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے شاید یہ ان کے پاس آخری موقع ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں ان کے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں۔

لیکن اگر چین ہانگ کانگ میں کوئی مسلح پیش قدمی کرتا ہے، تو اس سے ہانگ کانگ کو بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ دنیا کے اس اہم مالیاتی مرکز کا کاروبار برباد ہو سکتا ہے اور لوگوں کو حاصل بنیادی آزادیاں ہمشہ کے لیے ختم یا متاثر ہو سکتی ہیں۔ پھر ہانگ کانگ کے لوگوں کا کیا بنے گا؟

چین اگر مظاہروں کے پرتشدد خاتمے کی جانب بڑھتا ہے، تو شاید دنیا اس کو روک نہ سکے۔ بلکل ویسے ہی جب تین عشرے قبل بیجنگ میں آپریشن کے موقع پر چین کے اُس وقت کے لیڈر ڈینگ سیاؤپنگ نے کہا تھا، ”دنیا اسے بھول جائے گی۔‘‘

لیکن اس مرتبہ اگر چین ایک بار پھر طاقت کے بے دریغ استعمال پر اتر آتا ہے، تو جمہوریت کا پرچار کرنے والے مغربی ممالک کو کم از کم یہ یقینی بنانا چاہیے کہ چین کو ایسے کسی اقدام کی بھاری قیمت چکانا پڑے۔