چین نے اپنی’جارحانہ خلائی ٹیکنالوجی‘ میں پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے: پینٹاگان

Pentagon

Pentagon

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کی ہند بحرالکاہل کمان (انڈو پیسیفک کمانڈ) کے اعلیٰ انٹیلی جنس عہدہ دار کے مطابق چین مصنوعی سیاروں (سیٹلائٹس) کو جام کرنے یا تباہ کرنے کی صلاحیت کے حامل ہتھیاروں میں بڑی اور طویل مدتی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور وہ خلائی ٹیکنالوجی کے شعبے میں مسابقت کی دوڑ میں امریکا کے ہم پلّہ آنا چاہتا ہے۔

ریئر ایڈمرل مائیکل سٹوڈمین نے رواں ہفتے انٹیلی جنس سیکورٹی ٹریڈ گروپ کے زیراہتمام ویبی نار میں کہا کہ چین اینٹی سیٹلائٹ ہتھیاروں کی تیاری پر توجہ مرکوز کررہا ہےخلا سے زمین تک مار کرنے اور جام کرنے کی صلاحیتوں میں اضافے پر توجہ مرکوزکررہا ہے اور وہ ان سب اینٹی سیٹلائٹ صلاحیتوں کے ساتھ آگےبڑھ رہا ہے۔

سٹوڈمین نے امریکا کے پہلے اعلیٰ عہدہ دار ہیں جنھوں نے مخالف ملک چین کی خلائی صلاحیتوں کے بارے میں یہ جدید تر جائز پیش کیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن چین کو امریکا کی دفاعی منصوبہ بندی اور فوجی اخراجات کے ضمن میں سب سے بڑا چیلنج قراردیتے ہیں۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں امریکی حکام نے خلائی فورس، چھٹی امریکی فوجی سروس برانچ اور علاقائی خلائی کمان کے قیام پر زوردیا تھا اور اس کا بنیادی جواز یہ پیش کیا تھا کہ امریکی سیٹلائٹ نظام کو چین سے خطرات لاحق ہیں۔اس کے علاوہ کاؤنٹر اسپیس ٹیکنالوجیز میں روس نے بھی پیش رفت کی تھی۔

امریکا کی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر نے اپریل میں کہا تھا کہ چینی فوج خلائی خدمات مثلاً سیٹلائٹ سراغ رسانی اور پوزیشننگ، نیوی گیشن اور ٹائمنگ اور سیٹلائٹ مواصلات کو اپنے ہتھیاروں اور کمانڈ اور کنٹرول سسٹم سے مربوط کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گی تا کہ وہ امریکی فوج کے بارے میں بروقت معلوم حاصل کرسکے۔

ڈی این آئی نے کہا کہ نام نہاد کاؤنٹر اسپیس آپریشن کی تیاری آیندہ ممکنہ فوجی مہم کا لازمی حصہ ہوگی۔ انٹیلی جنس آفس نے خطرے کی جائزہ رپورٹ میں کہا تھا کہ چین نے اپنی خلائی فوج کے عناصر کو تربیت دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ وہ نئے تباہ کن اور غیرتباہ کن زمینی اور خلائی اینٹی سیٹلائٹ (اے ایس اے ٹی) ہتھیاروں کو میدان میں لارہاہے۔

رپورٹ کے مطابق چین زمین پر مبنی اے ایس اے ٹی میزائلوں کو’’پہلے ہی میدان میں اتارچکاہے۔‘‘ان کا مقصد زمین کے نچلے مدار میں سیٹلائٹس اور اے ایس اے ٹی لیزر کو تباہ کرنا ہے۔اس کا ایک اور مقصد زمین کے نچلے مدار میں موجود سیٹلائٹس میں حساس خلائی بنیاد پر قائم آپٹیکل سینسرز کونقصان پہنچانا ہوسکتاہے۔

امریکی ایوان نمایندگان کی بجٹ جائزہ کمیٹی نے مالی سال 2022ء کے دفاعی بل کے بارے میں اپنی مجوزہ رپورٹ میں نچلے مدار میں حساس خلائی سنسروں کو تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے کی صلاحیت کے حامل لیزر کی موجودگی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔اس نے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے کسی مربوط حکمت عملی کے فقدان پر بھی اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔

اس رپورٹ میں چین کا ذکر کیے بغیر پینٹاگان کواو ڈی این آئی کے ساتھ تال میل کی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ معاندین سے درپیش لیزر خطرے کی سرگرمی سے متعلق اعدادو شمار اکٹھا کرنے اور ان خطرات کو کم کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کرے۔

ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی نے 2019 میں کہا تھا کہ چین تباہ کن کاؤنٹر اسپیس ٹیکنالوجیز کے علاوہ فوجی اور تجارتی مواصلاتی سیٹلائٹس کے متوازی پروگراموں پر بھی عمل پیرا ہے۔وہ سول، تجارتی اورفوجی سیٹلائٹس کو دنیا کے قریباً 30 ممالک میں چلاتاہے۔اس کے علاوہ وہ کم تعداد میں صرف فوج کے لیے مختص مواصلاتی سیارے بھی چلاتا ہے۔

سٹوڈمین نے کہا کہ امریکاکی جانب سے بھی بھرپور سرگرمی جاری ہے کیونکہ ہم یہاں خطرے کو تسلیم کرتے ہیں۔خلائی ٹیکنالوجی میں بالادستی کی دوڑ میں آنے والے کچھ عرصے کے لیے اقدامات اور جوابی اقدامات کا کھیل ہوگا۔

امریکا نے چین اور روس کے خلائی سیاروں کو عارضی طور پر جام کرنے کے لیے ایک اعلیٰ کاؤنٹر اسپیس ہتھیار بھی ڈیزائن کیا تھا لیکن میڈولینڈز نظام کے نام سے یہ ہتھیار روس اور چین کے سیٹلائٹس کو تباہ کرنے کے لیے تیار نہیں کیا گیا تھا۔امریکا کی خلائی فورس آیندہ سات سال کے دوران میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے 48 ہتھیاروں پر مشتمل نظام بنا رہی ہے۔ان میں سے پہلا ہتھیار مارچ 2020 میں فعال ہوگیا تھا۔