چین نے ایغور مسلمانوں کی غالباً ’نسل کشی‘ کی ہے، امریکی کمیشن

Hongkong Protest

Hongkong Protest

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی کانگریس کے ایک کمیشن کا کہنا ہے کہ چین نے سنکیانگ صوبے میں ‘نسل کشی‘ کی ہے۔ یہ رپورٹ ایغور اور دیگر اقلیتوں کے تئیں بیجنگ کے سلوک کے حوالے سے تازہ ترین الزام ہے۔

امریکی کانگریس کی ایک کل جماعتی کمیشن نے جمعرات کے روز پیش کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین نے اپنے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کی غالباً نسل کشی کی ہے۔

چین سے متعلق خصوصی کمیشن (سی ای سی سی) کا کہنا ہے کہ ”جو نئے شواہد سامنے آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سنکیانگ میں انسانیت کے خلاف جرائم اور غالباً نسل کشی ہوئی ہے۔”

رپورٹ میں کہا گیا ہے، ”ایغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ہاں بچوں کی پیدائش پر روک لگانے کے لیے ایک پالیسی کے تحت منظم انداز میں عورتوں کو جبراً بانجھ بنانے کے اقدامات کے پریشان کن نئے شواہد سامنے آئے ہیں۔”

رپورٹ میں اس سلسلے میں سن 2017 کی ایک پالیسی دستاویز کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں اس خطے میں ابتدائی اور مڈل اسکول کی عمر کے بچوں کو ان کے خاندان سے زبردستی الگ کردینے کی بات کہی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”ان رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ چینی حکومت ایغور اور دیگر اقلیتوں کے کنبوں، ثقافت اور مذہبی روایات کو تباہ کرنے کے لیے قصداً کام کر رہی ہے۔ اس کے ان اقدامات کو یہ طے کرنے کے لیے مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ آیا چینی حکومت ایغور، قزاق اور دیگر ترک نسل کے لوگوں اور بالخصوص چین میں نسلی مسلم اقلیتوں کے خلاف جرائم بشمول نسل کشی کے لیے ذمہ دار ہے یا نہیں۔”

واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے نسل کشی کے امکان کو ”افواہ” قرار دیا۔

چینی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے کہا کہ چین سے متعلق کانگریس کی خصوصی کمیٹی (سی ای سی سی) کو ”چین کو بدنام کرنے کے لیے ہر طرح کے جھوٹے دعوے کرنے کا شوق ہے۔ مبینہ ‘نسل کشی‘ محض افواہ ہے جو بعض چین مخالف طاقتوں نے اڑائی ہے اور اس کا مقصد چین کو بد نام کرنا ہے۔”

عالمی برداری سنکیانگ کے متعلق چین کی پالیسیوں کی وجہ سے بیجنگ کی نکتہ چینی کرتی رہی ہے۔ حقوق انسانی کے گروپوں کا کہنا ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ ایغور، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، حراستی کیمپوں میں رکھے گئے ہیں۔ تاہم بیجنگ کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ان کیمپوں میں تعلیم اور تکنیکی تربیت کے لیے رکھا جاتا ہے اور ‘تعلیم حاصل کرلینے‘ کے بعد انہیں واپس گھر بھیج دیا جا تا ہے۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اپیل کی ہے امریکا ”باضابطہ اس بات کا تعین کرے کہ سنکیانگ میں زیادتیوں کا ارتکاب ہو رہا ہے یا نہیں۔”

ٹرمپ انتظامیہ مبینہ طور پر پہلے ہی اس سلسلے میں غور کر رہی ہے اور اگر وہ اس کا باضابطہ تعین کردیتی ہے تو اس سے بیجنگ کی بین الاقوامی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی۔

امریکا کی جانب سے باضابطہ تعین کا مطلب یہ ہوگا کہ دیگر ممالک سنکیانگ کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے اپنے ملک کی کمپنیوں کو اجازت دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں گی۔ اس سے دیگر امریکی پابندیو ں کے لیے بھی دباو بڑھ جائے گا۔ سنکیانگ میں دنیا کا بیس فیصد سے زیادہ کپاس پیدا ہوتا ہے۔

سی ای سی سی کے شریک چیئرمین اور ڈیموکریٹ نمائندہ جیمس میک گورن نے نو منتخب صدر جو بائیڈن انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ اس رپورٹ کو بیجنگ کو قصوروار ٹھہرانے کے لیے استعمال کرے۔

میک گورن نے کہا ”امریکا کو چین کے عوام کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہنا چاہیے اور چینی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیو ں کو روکنے کے لیے ایک متحد اور مربو ط عالمی اقدام میں دنیا کی قیادت کرنی چاہیے۔”