چین ایغور مسلمانوں کی ’نسل کشی‘ کا مرتکب، کینیڈین قرارداد منظور

China Uighur Muslims

China Uighur Muslims

کینیڈا (اصل میڈیا ڈیسک) کینیڈا میں ہاؤس آف کامنز کہلانے والے پارلیمانی ایوان زیریں نے متفقہ طور پر ایک ایسی قرارداد منظور کر لی ہے، جس کے مطابق چین اپنے ہاں ایغور اقلیتی مسلمانوں کے ساتھ رویوں کی صورت میں ان کی ’نسل کشی‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔

یہ قرارداد اپوزیشن کی قدامت پسند جماعت کے ارکان نے پیش کی اور اس کا مقصد ملکی وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ چین میں بیجنگ حکومت کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خاص کر ایغور مسلم اقلیت کے ساتھ جابرانہ رویوں کے حوالے سے کینیڈا کی طرف سے زیادہ سخت موقف اختیار کریں۔

کینیڈین ہاؤس آف کامنز کی طرف سے منظور کردہ اس قرارداد کی حیثیت علامتی ہے کیونکہ ٹروڈو حکومت اس میں کیے گئے مطالبات پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہو گی۔

اس کے باوجود یہ اپوزیشن کی تحریک پر کیا جانے والا ایک ایسا طاقت ور پارلیمانی فیصلہ ہے، جسے ملکی سیاسی شعبے اور عوام کی خواہشات کے مظہر کے طور پر وزیر اعظم ٹروڈو قطعی نظر انداز تو نہیں کر سکیں گے۔

اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد پر رائے شماری میں لبرل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سربراہ حکومت جسٹن ٹروڈو اور ان کی کابینہ کے ارکان نے تو حصہ نا لیا، مگر یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ یہ قرارداد 266 کے مقابلے میں صفر کے تناسب سے متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

چین کی طرف سے اس کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیتی آبادی کے ساتھ کیے جانے والے ناروا برتاؤ پر بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی شدید تنقید کوئی نئی بات نہیں۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیمیں عرصے سے یہ الزام لگاتی آ رہی ہیں کہ چینی حکام نے سنکیانگ میں تقریباﹰ ایک ملین تک ایغور مسلمانوں کو ‘نظربندی کیمپوں کے ایک پورے نیٹ ورک میں بند رکھنے‘ کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، وہ ان شہریوں کے بنیادی، سماجی اور شہری حقوق کی صریحاﹰ خلاف ورزی ہے۔

ایسی رپورٹیں بھی ملتی رہی ہیں کہ ان کیمپوں میں ایغور شہریوں کی نس بندی بھی کی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس چینی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے ایغور اقلیتی باشندوں کی محض تربیت کی جا رہی ہے۔

جہاں تک چین میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ سرکاری رویوں کا تعلق ہے، تو کینیڈا میں اس برتاؤ کا ‘نسل کشی‘ قرار دیا جانا ایک ایسی اصطلاح ہے، جس نے شمالی امریکا کے اس ملک میں ایک بڑی سیاسی تقسیم پیدا کر دی ہے۔

چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔

وزیر اعظم ٹروڈو نے ابھی گزشتہ ہفتے ہی کہا تھا کہ بیجنگ حکومت کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ کو نسل کشی قرار دینا دراصل ایک ‘بہت ہی بھاری اصطلاح‘ استعمال کرنا ہے۔ ٹروڈو کے مطابق، ”نسل کشی ایک ایسی اصطلاح ہے، جس کے استعمال سے قبل یہ امر بھی یقینی بنایا جانا چاہیے کہ ان الفاظ کا ہر حوالے سے درست استعمال کیا جائے اور پھر کوئی بھی اس استعمال کو چیلنج نا کر سکے۔‘‘

جہاں تک سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں سے متعلق چین کی سرکاری پالیسیوں کا سوال ہے، تو اس بارے میں کینیڈین حکومت کا اب تک کا موقف بہت واضح بھی ہے اور کھل کر تنقیدی بھی۔

اس بارے میں خارجہ امور کے ملکی وزیر مارک گارنو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ”کینیڈا کی حکومت نسل کشی سے متعلق کسی بھی طرح کے الزامات کے بارے میں انتہائی سنجیدہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ہمیں ان رپورٹوں پر بھی گہری تشویش ہے، جن کے مطابق سنکیانگ میں انسان حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔‘‘