کرائسٹ چرچ ميں مساجد پر حملوں کو ايک سال بيت گيا

Christchurch Tragedy

Christchurch Tragedy

ویلنگٹن (جیوڈیسک) کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کے دوران تيمل اٹاککيگو کو نو گولياں گی تھيں تاہم معجزاتی طور پر وہ بچ گئے تھے۔ ان کے بقول حملہ آور کے ارادوں کے منافی وہ آج اپنے عقيدے سے اور زيادہ قريب ہيں اور بالکل بھی خوف زدہ نہيں۔

جمعے کی نماز کے دوران تيمل اٹاککيگو اس وقت سجدے ميں تھے اور اٹھتے ہی کہ اچانک ان کی نگاہ حملہ آور پر پڑی۔ لباس کی وجہ سے تيمل کو لگا کہ شايد وہ پوليس افسر ہے۔ تيمل کو بندوق کی نالی سے اٹھتا دھواں دکھائی ديا۔ اسے اپنے جبڑے ميں گولی لگنے کا احساس ہوا اور پھر وقت تھم سا گيا۔ ايک ہی لمحے ميں تيمل کو احساس ہو گيا کہ بس اب اس کی زندگی ختم۔ نيوزی لينڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی النور مسجد ميں پچھلے سال پندرہ مارچ کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے ميں پينتاليس سالہ تيمل اٹاککيگو کو نو گولياں لگيں ليکن معجزاتی طور پر وہ بچ گئے۔

پندرہ مارچ سن 2019 کے دن کرائسٹ چرچ ميں دو مختلف مساجد پر ہونے والے حملوں ميں اکاون افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ آج اس واقعے کے عين ايک برس بعد ہلاک شدگان کو ياد کيا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس کے باعث کرائسٹ چرچ ميں بڑی دعائيہ تقريب منسوخ کر دی گئی تاہم مقامی لوگوں نے ايک چھوٹی تقريب ميں ہلاک شدگان کو خراج عقيدت پيش کيا۔ اس دوران النور مسجد کے باہر ايک مقامی کلب کے ارکان نے روايتی رقص بھی کيا۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد دن بھر مسجد جا کر اپنے اپنے طور پر متاثرين کے ساتھ اظہار يکجہتی کرتے رہے۔

اس حملے ميں شديد زخمی ہونے والے پينتاليس سالہ ترک نژاد تيمل اٹاککيگو آج تک اپنی نفسياتی و جسمانی چوٹوں سے نمٹنے کی کوشوں ميں ہيں۔ جس سن يہ حملہ ہوا، تيمل کافی خوش مزاج موڈ ميں تھے اور جمعے کی نماز کے ليے مسجد گئے تھے۔ تيمل نے اپنے بچپن ميں ترکی ميں لازمی فوجی ٹريننگ ميں حصہ ليا تھا۔ اسی باعث پہلی لوگی لگتے ہی ان کو يہ احساس ہو گيا تھا کہ گولی ان کی دماغ کی طرف نہيں بڑھی بلکہ دانتوں سے نيچے اتر گئی ہے۔ پھر وہ رينگتے ہوئے آگے بڑھے اور اس دوران آٹھ مزيد گولياں ان کی ٹانگوں پر لگيں۔

وہ اگلے ايک ماہ تک ہسپتال ميں تھے، جس دوران ان کے چار آپريشن ہوئے۔ انہيں مکمل صحت يابی کے ليے اب بھی تين مزيد سرجريز سے گزرنا ہے، ”ميرے ليے سب سے بڑا چيلنج يہ ثابت ہوا کہ ميں پہلے کی طرح اپنی مرضی کے مطابق ہل جل نہيں سکتا۔ ميں خود کو ايک نومولود بچے کی طرح محسوس کر رہا تھا، جسے ہر وقت کسی کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘

البتہ يہ حقيقت کہ تيمل اٹاککيگو آج بھی زندہ ہيں، ايک حيران کن بات ہے۔ اب تو انہيں وہيل چيئر بھی نہيں درکار۔ ان کے ہاتھ آج بھی ذرا کمزور ہيں ليکن ٹانگيں حرکت ميں ہيں۔ چند ماہ قبل تيمل نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ دوبارہ فٹ بال کھيلنا شروع کیا۔ تاہم ان کا نفسياتی علاج زيادہ مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ وہ آج بھی ايک سائيکالوجسٹ کے پاس جاتے ہيں تاکہ حملے کی يادوں اور ان جھلکيوں سے چھٹکارہ حاصل کر سکيں جو انہيں تنگ کرتی ہيں۔

انتيس سالہ آسٹريلوی مشتبہ حملہ آور کے خلاف مقدمہ اس سال جون ميں شروع ہونا ہے۔ تيمل اٹاککيگو نے کہا ہے کہ وہ عدالتی سماعت ميں شريک ہوں گے۔ انہوں نے اس پورے کے پورے تجربے کو کچھ يوں بيان کيا، ”ميری پوری زندگی تبديل ہو چکی ہے۔ روح اور اپنے عقيدے کے اعتبار سے ميں آج اور بھی زيادہ مضبوط ہوں۔‘‘