کرائسٹ چرچ: پولیس کو ایک اور مسجد پر حملے کی اطلاع تھی

Mosque

Mosque

کرائسٹ چرچ (اصل میڈیا ڈیسک) نیوزی لینڈ کی اسلامک وومین کونسل کے مطابق پولیس اور سکیورٹی اداروں کو پندرہ مارچ 2019ء کو ایک اور مسجد پر مبینہ حملے کے بارے میں متنبہ کیا گیا تھا۔ اس دن کرائسٹ چرچ میں ایک مسلح حملہ آور نے51 نمازیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

اسلامک وومین گروپ نے تحقیقاتی انکوائری کو بتایا ہے کہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کے روز پولیس اور سکیورٹی اداروں کو ایک اور مسجد پر مبینہ حملے کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔ اسلامک وومین کونسل کے مطابق انہوں نے پولیس کو بار بار سفید فام نسلی برتری کے پیروکاروں کی جانب سے دھمکیوں کے بارے میں خبردار کیا تھا۔

کونسل نے ایک سو تیس صفحات پر مشتمل اپنی جامع رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ برس پندرہ مارچ کے ہی دن اُن کو فیس بک پر جیسے ہی ہیملٹن شہر کی ایک مسجد کے سامنے قرآن نذر آتش کرنے کا ایک پیغام موصول ہوا تو انہوں نے فوراﹰ متعلقہ اداروں کو آگاہ کر دیا تھا۔ واضح رہے اس ہی دن یعنی پندرہ مارچ سن 2019 کو کرائسٹ چرچ ميں دو مختلف مساجد پر ہونے والے حملوں ميں اکاون افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اسلامک وومین کونسل نے انکوئری مشن کو رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ اگرچہ یہ دھمکی براہ راست کرائسٹ چرچ میں حملوں سے منسلک نہیں تھی لیکن تمام مساجد میں اضافی حفاظتی اقدامات لیے جاسکتے تھے۔ اس رپورٹ کو منگل کے روز عام کیا گیا ہے۔ کونسل کی رپورٹ کے مطابق، ’’پولیس کے پاس ملکی سطح پر مساجد کی سکیورٹی سخت کرنے کی جامع حکمت عملی جاری کرنے کے لیے کافی شواہد موجود تھے۔‘‘

انتيس سالہ آسٹريلوی مبینہ حملہ آور برینٹن ٹیرنٹ کے خلاف عدالتی فیصلہ آئندہ ماہ چوبیس اگست کی سماعت کے دوران متوقع ہے۔ کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملہ کرنے والے ٹیرنٹ کے پاس اسلحہ رکھنے کا لائسنس بھی موجود تھا اور اس کی سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کے تناظر میں شبہ ہے کہ وہ سفید فام نسل پرست ہے۔ برینٹن نے خونریزی کا یہ واقعہ فیس بک پر لائیو نشر کیا تھا۔ اس کو مسجد النور پر حملے کے چھتیس منٹ بعد حراست میں لیا گیا تھا۔

نیوزی لینڈ کی اسلامک وومین کونسل کے دعوی کے جواب میں پولیس کا کہنا ہے کہ رائل کمیشن کی تحقیقات مکمل ہونے تک اس بارے میں کوئی بھی تبصرہ نہیں کیا جائے گا۔ تاہم، ہیملٹن کی مسجد پر حملے کے خطرے کے بارے میں پولیس نے بتایا ہے کہ دھمکی دینے والے شخص کی شناخت کی گئی تھی اور اسے باضابطہ طور پر متنبہ بھی کیا گیا تھا۔ کرائسٹ چرچ میں دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں رائل کمیشن کی انکوائری کی تفتیش جولائی کے آخر تک مکمل ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔

کرائسٹ چرچ کے حملوں کے بعد سے اب تک مسلم برادری کو نفرت آمیز دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس سال کے آغاز میں ہی ایک دھمکی آمیز پوسٹ پوسٹ شائع کی گئی تھی۔

نیوزی لینڈ میں برطانیہ اور امریکا کے برعکس نفرت پر مبنی جرائم کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہی ہے لیکن کرائسٹ چرچ کے حملے کے نتیجے میں سکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

مسلم خواتین کی کونسل کے اندازوں کے مطابق نیوزی لینڈ میں اسکارف پہننے والی شاید ہی کوئی ایسی خاتون ہو، جسے عوامی مقامات پر کسی قسم کی بدسلوکی کا نشانہ نہ کرنا پڑا ہو۔